کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 351
عروہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:
’’جب تم عمر رضی اللہ عنہ کا ذکر چھیڑتے ہو تو مجلس میں تازگی آجاتی ہے۔‘‘[1]
ب: سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کی وفات پر رو رہے تھے، لوگوں نے پوچھا: کیوں روتے ہو؟ انہوں نے کہا: اسلام کے نقصان پر۔ بے شک عمر رضی اللہ عنہ کی موت سے اسلام کی عمارت میں ایسا شگاف پڑ گیا ہے جو قیامت تک پر نہیں ہو سکتا۔[2]
ت: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اگر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں اور پوری روئے زمین والوں کا علم دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو عمر رضی اللہ عنہ کا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔[3]
اور ایک مرتبہ کہا: میں سمجھتا ہوں کہ عمر کی موت سے علم کا ۱۰/ ۹ حصہ اس دنیا سے چلا گیا۔[4]
اور فرمایا: ’’عمر رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا نوید فتح، آپ کی ہجرت مسلمانوں کے لیے نصرت اور آپ کی حکومت خلق الٰہی کے لیے رحمت ثابت ہوئی۔‘‘[5]
ث: ابو طلحہ انصاری نے فرمایا کہ اہل عرب کا کوئی گھر ایسا نہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کی موت سے اس کے دین ودنیا میں کمی نہ واقع ہوئی ہو۔[6]
ج: حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اسلام کی مثال آگے بڑھنے والے کی طرح تھی جو مسلسل آگے ہی بڑھتا رہا، (عروج پر رہا) اور آپ کی شہادت کے بعد اس کی مثال پیچھے رہنے والے کی سی ہوگئی جو مسلسل پیچھے ہی ہوتا چلا گیا یعنی تنزلی کا شکار ہوگیا۔[7]
ح: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ ختم ہونے کے بعد عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تو کہنے لگے: ’’نماز جنازہ پڑھنے میں تو آپ لوگ مجھ سے سبقت لے گئے، لیکن آپ کی مدح و منقبت کرنے میں مجھ سے آگے نہیں نکل سکے۔ پھر کہا: اے عمر! تم کتنے بہترین مسلمان بھائی تھے، حق کے لیے بے مثال سخی اور باطل کے لیے بخیل، خوشی کے وقت خوش ہوتے تھے اور غضب کے وقت غضبناک، نہ بے جا تعریف کرتے تھے، نہ پیٹھ پیچھے کسی کو برا کہتے تھے، آپ پاک نظر وعالی ظرف تھے۔[8]
[1] محض الصواب: ۳/ ۵۳ ۸ بحوالۃ مناقب أمیر المؤمنین ، ص: ۲۴۹۔
[2] الطبقات الکبرٰی، ابن سعد: ۳/۳۷۲، أنساب الإشراف الشیخان ، ص: ۳۸۷۔
[3] مصنف ابن أبی شیبۃ : ۱۲/۳۲، اس کی سند صحیح ہے۔
[4] المعجم الکبیر، الطبرانی: ۹/۱۷۹، ۱۸۰، اس کی سند صحیح ہے۔
[5] معجم الکبیر، الطبرانی: ۹/۱۷۸۔ اس کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں انقطاع ہے۔
[6] الطبقات الکبرٰی، ابن سعد: ۳/ ۳۷۴۔
[7] الطبقات الکبرٰی، ابن سعد: ۳/۳۷۳، اس کی سند صحیح ہے۔
[8] الطبقات الکبرٰی: ۳/ ۳۶۹۔