کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 350
اس واقعہ کو کہیں نہیں ذکر کیا۔[1] رہے حافظ ابن کثیر تو ان کا کہنا ہے کہ ابولؤلؤ نے منگل کی شام دھمکی دی تھی اور ۲۶ذی الحجہ بدھ کی صبح اس نے حملہ کیا۔[2] گویا ابولؤلؤ کی دھمکی اور اس کی قاتلانہ کارروائی کے درمیان چند محدود گھڑیوں کا فاصلہ تھا، لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کعب احبار عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کیسے اور کب گئے؟ اور جا کر کہا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ تین دنوں میں آپ مر جائیں گے۔ پھر کہتے ہیں کہ آج ایک دن گزر گیا، صرف دو دن اور باقی ہیں ۔ پھر کہا: آج دو دن گزر گئے اب ایک دن اور ایک رات باقی ہے۔ اگر دھمکی شام کو دی اور صبح قاتلانہ کارروائی کر بیٹھا تو کعب کو یہ تین دن کہاں سے مل گئے؟ اس کے بعد سلسلہ وار متاخرین نے مثلاً سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں ، عصامی نے ’’سمط النجوم العوالی‘‘ میں ، شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اور ان کے صاحبزادے عبداللہ نے ’’مختصر سیرۃ الرسول‘‘ میں اور حسن ابراہیم حسن نے ’’تاریخ الإسلام السیاسی‘‘ میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے واقعہ شہادت کو ذکر کیا ہے لیکن کسی نے دور و نزدیک کسی اعتبار سے بھی کعب کا واقعہ نہیں چھیڑا۔ اگر اس کو جھوٹ تسلیم نہ کریں تو کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ محققین کے نزدیک اس واقعہ کا ذکر قطعاً اطمینان بخش نہیں ہے اور بعض لوگوں نے کعب کے خلاف لوگوں کے دلوں میں نفرت ڈالنے کے لیے یہ سازش کی ہے۔ یہی بات زیادہ سمجھ میں آتی ہے اور اسی پر دل کو اطمینان بھی حاصل ہوتا ہے۔ خاص طور سے اس لیے کہ وہ بہترین مسلمانوں میں سے تھے اور بہت سارے صحابہ کی نگاہوں میں ان کو بہت بڑا اعتماد حاصل تھا، یہاں تک کہ بعض صحابہ نے ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کی ہے۔[3] ۷: صحابہ اور اسلام کی طرف سے مدح و منقبت اور تعزیتی کلمات: ا: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی تدفین کے بعد عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی تعلیم و تکریم کا اتنا اہتمام کیا کہ انہی کے بقول: ’’میں اپنے حجرہ میں ، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میرے والد مدفون ہیں (بغیر کسی پردہ کے) داخل ہوتی تھی، لیکن جب وہاں ان دونوں کے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ بھی مدفون ہوگئے تو اللہ کی قسم! میں جب بھی داخل ہوئی سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے لحاظ میں پردے ہی سے داخل ہوئی۔‘‘[4] اور قاسم بن محمد رحمہ اللہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا: ’’جس نے ابن خطاب کو دیکھ لیا اسے معلوم ہے کہ وہ اسلام کو تقویت دینے کے لیے پیدا کیے گئے تھے، اللہ کی قسم! آپ بے حد واقف کار تھے، علم وہنر میں یگانہ روزگار تھے، ہر فن وضرورت کے مطابق افراد کو تیار کر دیا تھا۔‘‘[5]
[1] جولۃ عصر الخلفاء الراشدین، ص:۲۹۶۔ [2] البدایۃ والنہایۃ: ۷/۱۳۷۔ [3] جولۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص:۲۹۶۔ [4] محض الصواب: ۳/۸۵۲۔ [5] محض الصواب: ۳/۸۵۳۔ اس کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں ، صرف عبدالواحد بن ابی عوف ایسے صدوق ہیں جو کبھی کبھی غلطی کرتے ہیں ۔