کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 349
پھر گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’کعب احبار کی دینداری، اخلاق وکردار، امانت و صداقت اور عموماً صحیح روایات کا اہتمام کرنے والوں کی طرف سے ان کی توثیق کی بنیاد پر ہم یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں [1] کہ اس واقعہ کی ان کی طرف نسبت سراسر غلط ہے اور ہم انہیں عمر رضی اللہ عنہ کے قتل کی سازش یا سازش کرنے والوں کی جانکاری سے بالکل بری مانتے ہیں ۔ اسی طرح ہم انہیں کذب وافتراپردازی سے پاک وصاف سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بات کو مستند بنانے کے لیے تورات کے حوالے کا ڈھونگ رچایا ہوگا یا اسے اسرائیلی روایت کے قالب میں ڈھالا ہوگا۔[2] اس مسئلہ میں کعب مظلوم ہیں ، انہیں ہم ثقہ اور دیانت دار سمجھتے ہیں ، آپ ایک عالم تھے، آپ کے نام کا غلط استعمال ہوا ہے اور آپ کی طرف ایسی روایات منسوب کر دی گئی ہیں جو سراسر خرافات اور جھوٹ ہیں ، اعدائے اسلام انہیں عوام میں رواج دینا چاہتے ہیں اور نرے گنوار وجاہل لوگ انہیں قبول بھی کر لیتے ہیں ۔‘‘[3] ڈاکٹر محمد سید الوکیل لکھتے ہیں : اس واقعہ کی صداقت معلوم کرنے کے لیے ایک محقق کو سب سے پہلے عبیداللہ بن عمر کے موقف پر نگاہ ڈالنی چاہیے کہ ابھی انہوں نے اپنے باپ پر قاتلانہ حملہ کی تفصیلی خبر سنی ہی تھی کہ غصہ سے تلوار اٹھا لی اور جنگی شیر کی طرح بپھر گئے، ہرمزان، جفینہ اور ابولؤلؤ کی چھوٹی بچی کو موت کے گھاٹ اتار دیا، آپ کا کیا خیال ہے کیا وہ ابولؤلؤ کی چھوٹی بچی کو قتل کر دیں گے اور کعب احبار کو جو مکمل شک وشبہ کے دائرے میں ہوں انہیں چھوڑ دیں گے؟ یقینا اگر کوئی محقق اس واقعہ کی علمی تحقیق کرے گا تو یہ بات ماننے کے لیے ہرگز تیار نہ ہوگا۔ مزید برآں ایک بات اور بھی قابل توجہ ہے کہ جمہور مؤرخین نے اس واقعہ کو اپنی تاریخ میں جگہ دینا تو درکنار اس کی طرف اشارہ بھی نہیں کیا۔ چنانچہ ابن سعد نے الطبقات الکبریٰ میں پورا واقعہ تفصیل سے اور کافی دقت سے لکھا ہے، لیکن اس واقعہ کی طرف اشارہ تک نہیں کیا، کعب احبار کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جو بات لکھی ہے وہ یہ کہ کعب، عمر رضی اللہ عنہ کے گھر کے دروازے کے پاس کھڑے رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے: اللہ کی قسم اگر امیرالمومنین دل کی گہرائیوں سے اپنی موت کی تاخیر کے لیے اللہ سے دعا کرتے تو اللہ تعالیٰ موت مؤخر کر دیتا۔[4] آپ کے قریب اس وقت گئے جب طبیب نے بتا دیا کہ اب آپ کی موت بالکل قریب ہے۔ آپ نے اس وقت کہا: کیا میں کہتا نہیں تھا کہ آپ شہادت کی موت مریں گے اور آپ کہتے تھے کہ بھلا جزیرہ عرب میں رہ کر یہ کہاں ممکن ہے۔[5] ابن سعد کے بعد، ابن عبدالبر نے الاستیعاب میں شہادت کا پورا واقعہ لکھا ہے، لیکن اس میں کعب احبار کے
[1] الإسرائیلیات فی التفسیر والحدیث، ص:۹۶۔ [2] ایضًا، ص: ۹۹۔ [3] ایضًا، ص: ۹۹۔ [4] الطبقات الکبرٰی: ۳/ ۳۶۱۔ [5] الطبقات الکبرٰی: ۳/ ۳۴۰۔