کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 348
ج: اگر اس واقعہ کو صحیح مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کعب اس سازش میں برابر کے شریک تھے اور اپنی ہی سازش کو خود عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیان کر دیا۔ حالانکہ یہ بات عقل اور واقع کے بالکل خلاف ہے، جو شخص کسی حادثہ کی سازش میں شریک ہوتا ہے وہ حادثہ پیش آجانے کے بعد بھی اسے مکمل طور پر پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ حادثہ کار کے برے انجام سے خود کو محفوظ رکھ سکے۔ گویا حادثہ پیش آنے سے پہلے کسی سازش کا راز فاش کر دینا عقل مند کا نہیں بلکہ حد درجہ بے وقوف اور مغفل انسان کا کام ہے اور کعب ایسے نہ تھے، ان کی ذکاوت اور فہم و فراست بھی لوگوں میں مسلم تھی۔[1]
د: تورات شریعتِ الٰہی کی کتاب ہے، لوگوں کی عمر کی تحدید سے اس کا کیا تعلق؟ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے جو بھی کتابیں نازل فرمائیں ان کا مقصد لوگوں کو ہدایت یاب کرنا تھا، اس قسم کی واہی تباہی خبریں بیان کرنا نہیں ۔[2]
و: تورات اب بھی ہمارے درمیان موجود ہے، لیکن اس میں ایسا کوئی واقعہ قطعاً نہیں ہے۔[3]
مذکورہ بالا چار اعتراضات کو ذکر کرنے کے بعد شیخ محمد ابوزہو فرماتے ہیں :
’’ان تمام وجوہات پر غور کرنے کے بعد ہمارے سامنے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ واقعہ بالکل جھوٹا ہے، اس کے جھوٹ ہونے میں ذرہ برابر شک نہیں ہے اور کعب پر یہ تہمت لگانا کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں اسلام کے ساتھ غداری کی، یا تورات کی طرف غلط بات منسوب کرنا یہ سب جھوٹی تہمتیں ہیں ان کی کوئی دلیل اور سند نہیں ہے۔‘‘[4]
ڈاکٹر محمد حسین ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’اس واقعہ کو ابن جریر طبری کا نقل کرنا اس کی صحت کی دلیل نہیں ہے، اس لیے کہ ابن جریر کے بارے میں ہر ذی علم یہ جانتا ہے کہ تمام روایات کے نقل کرنے میں وہ صحت کا التزام نہیں کرتے، اگر ان کی تفسیر کا تحقیقی مطالعہ کریں گے تو ایسی بہت سی باتیں ملیں گی جو صحیح نہیں ہیں ۔[5] یہی حال ان کی تاریخی روایات کا بھی ہے۔ تمام واقعات کے بارے میں یہ بات قطعی طور سے نہیں کہی جا سکتی کہ صحیح ہیں یا غلط، صرف طبری ہی نہیں ، بلکہ تمام تاریخی کتابوں میں جو روایات منقول ہیں [6] ان کے بارے میں کسی کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ اس میں ساری روایات صحیح اور ثابت ہیں ۔[7]
[1] الحدیث والمحدثون، أوعنایۃ الأمۃ الإسلامیۃ بالسنۃ، محمد أبو زھو، ص:۱۸۲۔
[2] العنصریۃ الیہودیۃ: ۲/۵۲۴۔
[3] العنصریۃ الیہودیۃ: ۲/۵۲۴۔
[4] الحدیث والمحدثون، ص:۱۸۳۔
[5] العنصریۃ الیہودیۃ: ۲؍۵۲۵۔
[6] العنصریۃ الیہودیۃ: ۲؍۵۲۵۔
[7] الاسرائیلیات فی ا لتفسیر والحدیث، ص:۹۹۔