کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 347
آپ نماز فجر کے لیے نکلے، آپ کی عادت تھی کہ نماز شروع ہونے سے پہلے کچھ لوگوں کو صفیں درست کرنے کے لیے مکلف کر رکھا تھا اور جب صف برابر ہو جاتی تو آپ آتے اور اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کرتے۔ چنانچہ آج بھی ایسا ہی کیا، (نماز شروع ہوئی تو) ابو لؤلؤ مجوسی لوگوں میں گھس گیا، اس کے ہاتھ میں ایک خنجر تھا اس کے دوسرے تھے، پکڑنے کی جگہ درمیان میں بنائی گئی تھی۔ اسی خنجر سے اس نے عمر رضی اللہ عنہ پر چھ وار کیے۔ ایک ضرب تو زیر ناف لگی اور وہ اتنی کاری تھی کہ وہی جان لیوا ثابت ہوئی۔[1]
اس روایت کو سامنے رکھتے ہوئے بعض جدید مفکرین نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قتل کی سازش میں کعب احبار برابر کے شریک تھے، مثلاً ڈاکٹر جمیل عبداللہ مصری نے اپنی کتاب ’’اثر اہل الکتاب فی الفتن والحروب الأہلیۃ فی القرن الأول الہجری‘‘ میں ، اسی طرح عبدالوہاب نجار نے ’’الخلفاء الراشدون‘‘ میں اور غازی محمد فریج نے اپنی کتاب ’’النشاط السری الیہودی فی الفکر والممارسۃ‘‘ میں یہی بات لکھی ہے۔[2] لیکن ڈاکٹر احمد بن عبداللہ بن ابراہیم الزغیبی نے کعب احبار کی طرف منسوب کی جانے والی اس تہمت کا ردّ کیا ہے، فرماتے ہیں کہ: اس پیچیدہ واقعہ کے بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ اس باب میں کعب احبار سے متعلق جو روایت امام طبری نے نقل کی ہے وہ کئی اسباب و وجوہ کی بنا پر صحیح نہیں ہے۔ ان میں چند اہم وجوہات یہ ہیں :
ا: اگر یہ واقعہ صحیح ہوتا تو عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ توقع کرنا بالکل بجا ہے کہ آپ صرف کعب کی بات پر اکتفا نہ کرتے بلکہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جیسے دوسرے لوگ جنہوں نے یہودیت چھوڑ کر اسلام قبول کیا تھا اور انہیں تورات کا بہترین علم تھا، آپ ان لوگوں کو اکٹھا کرتے اور اس واقعہ کے بارے میں ان سے پوچھتے، پھر حقیقت سامنے آنے کے بعد کعب رحمہ اللہ کی بے عزتی ہوتی ، لوگوں کی نگاہ میں وہ جھوٹے مانے جاتے اور عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بھی یہ بات واضح ہو جاتی کہ آپ کے قتل کی جو سازش کی گئی ہے کعب بھی اس میں شریک ہیں یا کم از کم انہیں اس کا علم ضرور ہے اور اس وقت عمر رضی اللہ عنہ بھی مختلف وسائل و ذرائع سے حقیقت کا پتہ چلاتے، سازش کرنے والوں کو سخت سزا دیتے، ان میں کعب کو بھی سزا ملتی۔ ایسے واقعہ میں ہر حال میں یہی توقع ہے چہ جائے کہ عمر رضی اللہ عنہ کی بات ہو، جو کمال دانائی، ذہن کی سرعت اور حقائق کی تہ تک پہنچنے میں کافی شہرت یافتہ تھے، لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ واقعہ سراسرمن گھڑت ہے۔[3]
ب: اگر اس واقعہ کا ذکر تورات میں آیا ہوتا تو صرف کعب رحمہ اللہ ہی کو اس کا علم نہ ہوتا، بلکہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جیسے جن لوگوں کو بھی تورات کی معلومات تھیں وہ سب اسے جانتے۔[4]
[1] تاریخ الطبری: ۵/۱۸۲، ۱۸۳۔
[2] العنصریۃ الیہودیۃ وآثارھا فی المجتمع الإسلامی: ۲/۵۱۸، ۵۱۹۔
[3] الحدیث والمحدثون، أوعنایۃ الأمۃ الإسلامیۃ بالسنۃ، محمد أبو زھو، ص:۱۸۲۔
[4] ایضًا، ص:۱۸۳۔