کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 346
بڑے فقیہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: جب سارے مسلمان مکہ میں ڈرے سہمے رہتے تھے تو کیا اس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے حق میں یہ دعا نہیں کی تھی کہ اللہ آپ کے ذریعہ سے دین اسلام اور مسلمانوں کو غالب کر دے؟ اور ایسا ہی ہوا کہ جب آپ اسلام لائے تو آپ کا اسلام معزز رہا اور مذہب اسلام کا غلبہ ہوا،… اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے تمام مسلمانوں کے گھروں میں ان کے دین کو وسعت دی، روزیوں میں برکت دی اور اب آپ کی موت شہادت پر کر رہا ہے، پس قابل مبارک باد اور خوش قسمت ہیں آپ! ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ سب کچھ کہا، لیکن عمر رضی اللہ عنہ کے دل پر اس کا کچھ بھی اثر نہ ہوا اور نہ آپ خوش ہوئے، بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ کہتے ہوئے جواب دیا کہ ’’بے شک جسے تم لوگ دھوکا دے دو وہ دھوکا میں پڑ گیا۔‘‘[1] ۶: عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے واقعہ شہادت کے بارے میں کعب احبار کے موقف کی حقیقت: کعب احبار سے مراد کعب بن ماتع حمیری ہیں ، ان کی کنیت ابو اسحق ہے، کعب احبار کے نام سے شہرت پائی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا ہے، اس وقت بڑے ہو چکے تھے، ۱۲ ہجری میں عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اسلام لائے۔[2] اسلام لانے سے پہلے یمن کے ممتاز علمائے یہود میں سے تھے، اسلام لانے کے بعد صحابہ کرام سے کتاب وسنت کی تعلیمات سیکھیں ، صحابہ اور دوسرے لوگوں نے ان سے امت محمدیہ سے پہلے کی امتوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں ، آپ شام چلے گئے تھے، حمص میں مقیم رہے اور وہیں وفات ہوئی۔[3] امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قتل کی سازش میں کعب احبار کو بھی متہم کیا گیا ہے، چنانچہ طبری نے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے، جس میں عمر رضی اللہ عنہ کے قتل کی سازش میں ان کی شرکت کی طرف اشارہ ملتا ہے ۔ اس روایت میں ہے کہ: ’’پھر عمر رضی اللہ عنہ لوٹ کر اپنے گھر آئے، دوسرے دن صبح ہوئی تو ان کے پاس کعب احبار آئے اور کہنے لگے: اے امیرالمومنین! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ تین دنوں میں آپ مر جائیں گے۔ آپ نے پوچھا: تمہیں کیسے معلوم ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے اللہ کی کتاب تورات میں اسے پڑھا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا یقینا تم تورات میں عمر بن خطاب کا ذکر پاتے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں ، بلکہ آپ کے اوصاف اور جسمانی حلیہ کو میں نے پڑھا ہے اور اس حساب سے اب آپ کی عمر ختم ہو رہی ہے۔ راوی کہتا ہے کہ یہ سن کر عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو نہ کوئی تکلیف ہوئی اور نہ کوئی غم۔ دوسرے دن پھر صبح کے وقت کعب احبار آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے امیرالمومنین! ایک دن تو ختم ہو چکا، اب صرف ایک دن اور ایک رات باقی ہے اور یہ رات بھی صرف صبح تک آپ کا ساتھ دے گی۔ راوی کا کہنا ہے کہ: تیسرے دن جب صبح ہوئی تو
[1] سیر الشہداء، دروس و عبر، ص:۴۵۔ [2] جولۃ تاریخیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، محمد السید الوکیل: ۲۹۴۔ [3] سیر أعلام النبلاء: ۳/۴۸۹۔ ۴۹۴۔