کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 345
طرح عالم موت میں بھی آپ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کیا۔ اسی لیے عمر بن شبہ کی روایت کے مطابق ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ عمر پر رحمت نازل کرے، عالم نزع میں بھی آپ حق بات کہنے سے غافل نہ ہوئے۔[1]
اسی طرح زندگی کے آخری لمحات میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر خصوصی توجہ دینے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جب آپ کی صاحبزادی حفصہ رضی اللہ عنہا آپ کی زیارت کو آئیں تو کہنے لگیں : ہائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی، ہائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خسر، ہائے امیرالمومنین۔ عمر رضی اللہ عنہ کو یہ سن کر برداشت نہ ہوا اور اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا: اے عبداللہ! مجھے بٹھاؤ، میں جو کچھ سن رہا ہوں ، اب اس سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتا۔ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے سینے سے ٹیک دے کر بٹھا دیا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا: سن لو! اگر اب اس کے بعد تم نے میری خوبیوں کا ذکر کر کے نوحہ کیا تو اپنی وراثت سے تمہیں تمہارا مالی حق نہیں دوں گا۔ رہیں تمہاری
آنکھیں تو میں انہیں آنسو بہانے سے نہیں روک پاؤں گا۔[2]
اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ پر حملہ ہوا تو خبر ملتے ہی اُمّ المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا چیخنے لگیں ، عمر رضی اللہ عنہ نے فوراً حفصہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب کر کے کہا: اے حفصہ! کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں سنا:
(( اِنَّ الْمُعَوَّلَ عَلَیْہِ یُعَذَّبُ۔))
’’جس کی موت پر نوحہ کیا گیا وہ عذاب دیا جائے گا۔‘‘
پھر صہیب رضی اللہ عنہ آئے اور روتے ہوئے کہا: ہائے عمر! آپ نے کہا: اے صہیب تیرا برا ہو، کیا تجھے یہ حدیث نہیں پہنچی: ’’جس کی موت پر نوحہ کیا گیا وہ عذاب دیا جائے گا۔‘‘[3]
حق پر ثابت قدمی کی ایک زندہ مثال یہ دیکھیے کہ جب آپ پر حملہ ہوا اور آپ خون میں لت پت تھے، کسی نے کہا: عبداللہ بن عمر(اپنے بیٹے) کو خلیفہ بنا دیجیے آپ نے فرمایا: تو چاپلوسی کرتا ہے، اللہ کی رضا کے لیے تو نے یہ بات نہیں کہی۔[4]
۵: منہ پر تعریف کرنے کا جواز بشرطیکہ موصوف کے فتنے میں واقع ہونے کا اندیشہ نہ ہو:
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوا، چند صحابہ جنہیں یقین تھا کہ منہ پر تعریف کرنے سے عمر رضی اللہ عنہ فتنہ میں نہیں پڑیں گے، انہوں نے آ کر سامنے آپ کی تعریف کی، علماء میں عالم ربانی اور فقہائے اسلام میں بہت
[1] فتح الباری: ۷/۶۵، سیر الشہداء، ص: ۴۴۔
[2] مناقب أمیرالمومنین، ص:۲۳۰، الحسبۃ، د/ فضل إلٰہی، ص:۲۷۔
[3] صحیح مسلم ، کتابالجنائز: ۲۱؍۹۲۷۔ مسند أحمد: ۱؍۳۹۔
[4] سیر الشہدء، ص:۴۳۔