کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 342
اس لیے کہ اس نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا۔ اس مزار کی دیواروں پر فارسی زبان میں لکھا ہوا ہے: ’’مرگ بر ابوبکر، مرگ بر عمر، مرگ بر عثمان۔‘‘یہ مزار ایرانی شیعوں کی ایک اہم زیارت گاہ ہے۔ وہاں روپیوں پیسوں کے نذرانے چڑھائے جاتے ہیں ، میں نے اس مزار کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ایرانی وزارت مذہبی امور نے حکومتی خرچ پر اس میں تجدید و توسیع کی ہے۔ مزید برآں اس مزار کی تصویر پر ڈاک ٹکٹ جاری کیا ہے۔[1]
۲: عاجزی و فروتنی اور خوف وخشیت الٰہی عمر رضی اللہ عنہ کا امتیازی وصف:
سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے دل پر خشیت الٰہی کا کتنا زبردست غلبہ تھا اس کا اندازہ آپ کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے جو آپ نے یہ معلوم ہونے کے بعد کہ آپ کا قاتل ابولؤلؤ مجوسی ہے، فرمایا:
(( اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَجْعَلْ مَنِیَّتِیْ بِیَدِ رَجُلٍ یَدَّعِیْ الْاِسْلَامَ۔)) [2]
’’اللہ کا شکر ہے کہ جس نے میری موت ایسے آدمی کے ہاتھوں سے نہیں دی جو اسلام کا دعویٰ کر رہا ہو۔‘‘
پس باوجودیہ کہ ہر قریبی و اجنبی، عربی اور عجمی آپ کے عدل و انصاف کا معترف تھا اور آپ خود عدل و انصاف کے لیے سب کچھ قربان کر دینے والے تھے، تاہم آخری دم تک آپ کو فکر دامن گیر تھی کہ کہیں مسلمانوں میں سے کسی پر کبھی میں نے ظلم نہ کیا ہو جس کا بدلہ آج اس نے میرے قتل کے ذریعہ سے لیا ہو اور وہ قیامت کے دن بھی اللہ کے سامنے مجھے رسوا کرے، جیسا کہ ابن شہاب زہری کی روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
(( اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَجْعَلْ قَاتَلِیْ یُحَاجُّنِیْ عِنْدَ اللّٰہِ بِسَجْدَۃٍ سَجَدَہَا لَہٗ قَطُّ))
’’اس اللہ واحد کا شکر ہے جس نے میرا قاتل کسی ایسے آدمی کو نہیں بنایا جس نے کبھی اس کے لیے سجدہ کیا ہو جو اپنے اس سجدہ کے ذریعہ سے بروز قیامت اللہ کے سامنے میرے خلاف حجت قائم کرے گا۔‘‘
اور مبارک بن فضالہ کی روایت ہے کہ وہ کلمہ لا الٰہ الا اللہ کے ذریعہ سے میرے خلاف حجت قائم کرے۔[3]
یہ ہے ایک ربانی امام کی خشیت الٰہی اور انکساری کی تعجب خیز داستان کہ جس سے داعیان اسلام و مصلحین امت کو سبق سیکھنا چاہیے۔ تواضع و انکساری ہی ان کے تعارف کی سب سے بڑی علامت ہو، تاکہ ان کے کردار وعمل سے اللہ تعالیٰ دوسروں کو فائدہ پہنچائے، جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ کی ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچا اور سب کی زبان پر یہی جاری رہنا چاہیے کہ:
[1] للہ، ثم للتاریخ، کشف الاسرار و تبرئۃ الأئمۃ الأطہار، ص:۹۴۔
[2] صحیح البخاری، فضائل الصحابہ، حدیث نمبر:۳۷۰۰۔
[3] سیر الشہداء، دروس و عبرص: ۴۰۔