کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 341
ہلاک و برباد کرنے کے لیے بے چین رہتی ہیں ، ان کی بس ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ مسلمانوں سے ان کا مذہبی شعور چھین لیں اور انہیں اسلام سے کفر میں لوٹا دیں ۔[1]
اگر کوئی عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے واقعہ شہادت اور آپ کے قاتل بدبخت ابولؤلؤ کے حاقدانہ کردار کا بغور جائزہ لے تو دو اہم باتیں اس کے سامنے کھل کر آئیں گی جو اس کافر کے دل میں عمر رضی اللہ عنہ اور تمام مسلمانوں کے خلاف بغض، نفرت اور حسد کی طرف صاف صاف اشارہ کرتی ہیں :
ا: ابن سعد نے امام زہری تک بسند صحیح اپنی کتاب ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ میں لکھا ہے۔[2] کہ ایک دن عمر رضی اللہ عنہ نے اس مجوسی سے کہا: میں نے سنا ہے کہ تم ایسی چکی بنانے کا دعویٰ کر رہے ہو جو ہوا سے چلے گی۔ مجوسی ترش رو ہو کر آپ کی طرف متوجہ ہوا اور کہا: میں آپ کے لیے ایسی چکی بناؤں گا جس کا چرچا ہر جگہ ہوگا۔ اس کی بات سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: اس غلام نے مجھے دھمکی دی ہے۔
ب: جس وقت مجوسی نے عمر رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ کیا، اس وقت مزید تیرہ(۱۳) صحابہ پر بھی وار کیا، جن میں سے سات اسی وقت شہید ہوگئے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ پر حملہ کرنے کے بعد دو دھاری خنجر لے کر (ابولؤلؤ) مجوسی فرار ہوا، دائیں بائیں جو بھی ملتا اس پر وار کرتا رہا۔ یہاں تک کہ تیرہ (۱۳) لوگوں کو زخمی کر دیا، ان میں سات کی شہادت ہوگئی۔[3] پس بفرض محال (معاذ اللہ) مجوسی کے لیے مغیرہ رضی اللہ عنہ سے بروقت سفارش نہ کر کے عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر ظلم کیا تھا اور وہ ظالم تھے تو بقیہ تیرہ (۱۳) صحابہ کرام کا کیا قصور تھا، جن پر اس نے خنجر چلایا؟
بلا شبہ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کوئی ظلم نہ کیا تھا، صحیح بخاری میں ہے کہ جب عمر رضی اللہ عنہ پر حملہ ہوا تو آپ نے کہا: اے ابن عباس! دیکھو میرا قاتل کون ہے؟وہ ادھر ادھر کچھ دیر گھومتے اور خبر لیتے رہے، پھر واپس لوٹے اور آپ کو بتایا کہ: مغیرہ کا غلام۔ آپ نے پوچھا: کیا وہی کاری گر۔ انہوں نے کہا: ہاں ۔ آپ نے فرمایا: اللہ اس کو ہلاک کرے، میں نے اس کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا تھا۔ شکر ہے اللہ تعالیٰ کا کہ اس نے کسی کلمہ گو کے ہاتھوں مجھے موت نہیں دی۔[4]
اسی ابولؤلؤ مجوسی قاتل کے لیے اعدائے اسلام نے ایران میں گم نام فوجی کے طرز پر ایک یادگار مزار بنایا ہے، نجف کے عالم سید حسین موسوی لکھتے ہیں کہ ’’ایران کے شہر کاشان میں ، باغی فین کے علاقہ میں ایک گم نام فوجی کے طرز پر مزار پایا جاتا ہے، اس میں خلیفہ ثانی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قاتل ابولؤلؤ فیروز فارسی مجوسی کی وہمی قبر ہے، اس کو بابا شجاع الدین کا مزار کہا جاتا ہے۔ وہ لوگ ابولؤلؤ مجوسی کو بابا شجاع الدین کالقب دیتے ہیں
[1] سیر الشہداء دروس و عبر، عبدالحمید السحسیبانی، ص:۳۶۔
[2] الطبقات الکبرٰی: ۳/ ۳۴۵، اس کی سند صحیح ہے۔
[3] صحیح البخاری، فضائل الصحابۃ ، حدیث نمبر: ۳۷۰۰
[4] ایضًا