کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 339
کی قسم! یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پاؤں نہیں ہے، بلکہ عمر رضی اللہ عنہ کا ہے۔[1] اور تدفین سے متعلق یہ بات گزر چکی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ تدفین کی اجازت طلبی کے لیے عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا، تو آپ نے اجازت دی تھی، جب کہ ہشام بن عروہ بن زبیر کہتے ہیں : صحابہ کرام میں سے اگر کوئی عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس یہ پیغام بھیجتا کہ حجرئہ نبویہ میں ہمیں تدفین کی اجازت دے دیں تو کہتی تھیں : اللہ کی قسم اس سلسلے میں کسی کو اپنے اوپر ترجیح نہ دوں گی۔[2] چنانچہ تمام علماء کا اتفاق ہے کہ مسجد نبوی سے متصل اس حجرہ نبویہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما مدفون ہیں ۔[3] ۵: عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں سیّدناعلی رضی اللہ عنہ کا فرمان: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ اپنے تختے پر رکھے گئے، جنازہ اٹھائے جانے سے پہلے لوگوں نے آپ کو گھیر لیا، وہ سب آپ کے لیے دعائے خیر کرنے لگے، میں بھی ان لوگوں میں موجود تھا۔ اچانک ایک آدمی نے پیچھے سے میرا کندھا پکڑا جس سے میں گھبرا گیا، مڑ کر دیکھا تو وہ علی رضی اللہ عنہ تھے، کہنے لگے: عمر! اللہ تم پر رحم فرمائے، تم نے اپنے بعد کوئی ایسا شخص نہیں چھوڑا جسے دیکھ کر مجھے یہ تمنا ہوتی کہ اس جیسا عمل کرتے ہوئے اللہ سے ملوں ۔ اللہ کی قسم! مجھے تو یہ یقین تھا کہ وہ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ رکھے گا۔ میرا یہ یقین اس وجہ سے تھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کثرت سے یہ کہتے ہوئے سنتا تھا: میں گیا اور ابوبکر و عمر گئے، میں اور ابوبکر و عمر داخل ہوئے، میں اور ابوبکر و عمر باہر آئے۔[4] ۶: مسلمانوں پر آپ کی شہادت کے اثرات: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی شہادت مسلمانوں کے لیے ایک عظیم سانحہ تھی، کیونکہ کسی طویل بیماری کے بعد آپ کی وفات نہ ہوئی تھی، بلکہ یہ حادثہ اچانک پیش آیا تھا۔ یہ حادثہ اس وجہ سے اور بھی دل دوز ہوگیا کہ اس کا ظہور مسجد نبوی میں ہوا تھا اور اس وقت ہواتھا جب سیّدناعمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ اس حادثہ کے بعد مسلمانوں پر کیا گزری اس کا نقشہ عمرو بن میمون رحمہ اللہ اس طرح کھینچتے ہیں : ’’مسلمانوں کے لیے یہ ایسا جانکاہ حادثہ تھا کہ ایسا لگتا تھا جیسے اس سے پہلے ایسی مصیبت ان پر کبھی نہ آئی ہو۔‘‘ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے زخم خوردہ ہونے کے بعد ابن عباس رضی اللہ عنہما مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لینے نکلے تاکہ آپ کو مطلع کر دیں ، جب لوٹ کر آئے تو کہنے لگے: جن لوگوں سے بھی میری ملاقات ہوئی ،میں نے انہیں غم
[1] صحیح البخاری، الاعتصام: ۲۶۷۱، ۶۸۹۷۔ [2] محض الصواب: ۳/۸۴۷۔ [3] ایضًا [4] صحیح البخاری، فضائل الصحابۃ، حدیث نمبر۳۴۸۲۔