کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 338
جائے گی۔ پس اس تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب عمر رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو اس کے بعد آپ دیر تک زندہ رہے، اتنی دیر کہ طبیب نے آپ کو دودھ اور شربت پلایا، اسی لیے آپ کو غسل دلایا گیا اور آپ پر نماز جنازہ پڑھی گئی۔[1] ۳: نماز جنازہ کس نے پڑھائی؟ امام ذہبی کا کہنا ہے کہ صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔[2] اور ابن سعد کا کہنا ہے کہ علی بن حسین نے سعید بن مسیب سے پوچھا: عمر رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ کس نے پڑھائی؟ انہوں نے جواب دیا: صہیب رضی اللہ عنہ نے۔ علی نے سعید سے پوچھا: کتنی تکبیریں کہیں ؟ انہوں نے کہا: چار۔ پھر پوچھا: کہاں نماز جنازہ پڑھی گئی؟ انہوں نے کہا: قبر اور منبر رسول اللہ کے درمیان۔[3] ابن مسیب کا کہنا ہے کہ: جب مسلمانوں نے دیکھا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے صہیب رضی اللہ عنہ فرض نمازوں میں ان کی امامت کرتے تھے تو انہوں نے نماز جنازہ پڑھانے کے لیے بھی صہیب رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھایا، پھر انہوں نے نماز جنازہ پڑھائی۔[4] فاروقی تدبیر وسیاست کا ایک پہلو یہاں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ خلافت کی نامزدگی کے لیے جن چھ افراد کی مجلس شوریٰ بنائی تھی ان میں کسی کو اپنی جگہ امامت کا حق نہیں دیا تھا، تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ نماز کی امامت استحقاق خلافت کی علامت بن جائے اور عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کی نگاہ میں صہیب رضی اللہ عنہ کی قدر و منزلت مسلم تھی اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کے بارے میں فرمایا: ’’صہیب کتنا اچھا آدمی ہے، اس کے دل میں اللہ کا ڈر ہے کہ وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتا۔‘‘[5] ۴: تدفین: امام ذہبی کا قول ہے کہ’’عمر رضی اللہ عنہ کی تدفین حجرئہ نبویہ میں ہوئی۔‘‘[6] اور ابن الجوزی نے جابر رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کی قبر میں عثمان، سعید بن زید، صہیب اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم اترے۔[7] اور ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ ولید بن عبدالملک[8] کے زمانے میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی قبر پر دیوار گر گئی تھی تو لوگ اسے بنانے لگے، انہیں ایک پاؤں دکھائی دیا، وہ گھبرا گئے اور یہ گمان کرنے لگے کہ شاید یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پاؤں ہے، کوئی اس کی شناخت نہیں کر پا رہا تھا، یہاں تک کہ عروہ نے کہا: اللہ
[1] محض الصواب: ۳/۸۴۵۔ [2] ایضًا [3] الطبقات الکبرٰی، ابن سعد: ۳/ ۳۶۶، اس کی سند میں خالد بن الیاس نامی متروک راوی ہیں ۔ [4] الطبقات الکبرٰی، ابن سعد: ۳/ ۳۶۷، محض الصواب: ۳/۸۴۵۔ [5] الفتاوٰی: ۱۵/۱۴۰۔ [6] محض الصواب: ۳/ ۸۴۶۔ [7] ابن مروان الاموی خلفاء بنی امیہ میں سے ہیں ۔ [8] صحیح البخاری، الجنائز: ۱۳۲۶۔