کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 337
یہ ہے امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خشیت الٰہی کی ایک مثال کہ دنیا ہی میں جنت کی بشارت مل جانے کے باوجود موت کے وقت زبان سے جو آخری کلمہ ادا کرتے ہیں اس میں کہتے ہیں کہ: ’’اگر اللہ کی مغفرت سے محرومی ہوئی، اور اے نفس! تیری بربادی ہو۔‘‘ آپ ایسی بات کیوں نہ کہتے جب کہ آپ کو اللہ کی معرفت حاصل تھی اور جس شخص کو جتنا زیادہ اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اتنی ہی اللہ کی خشیت اس کے دل میں پنہاں ہوتی ہے۔ آپ کا اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اصرار کرنا کہ میرے رخسار کو زمین پر رکھ دو، یہ بھی اللہ کی تعظیم اور دعا کی جلد از جلد قبولیت کے لیے کسر نفسی کی ایک علامت تھی، جو ہمیں بتاتی ہے کہ آپ کا تعلق الٰہی کس قدر مضبوط اور معتمد تھا۔[1] ۱: تاریخ وفات اور زندگی کے سال: امام ذہبی لکھتے ہیں کہ ’’۲۶ یا ۲۷ ذی الحجہ بروز بدھ ۲۳ ہجری میں عمر رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش کیا، صحیح روایت کے مطابق اس وقت آپ کی عمر ۶۳ سال تھی۔[2] آپ کی مدت خلافت دس سال چھ مہینے اور کچھ دن ہے۔[3] جریر بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس وقت آپ تریسٹھ (۶۳) سال کے تھے اور جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو وہ تریسٹھ سال کے تھے اور جب عمر رضی اللہ عنہ شہید کیے گئے تو اس وقت ان کی عمر بھی تریسٹھ (۶۳) سال تھی۔[4] ۲: غسل، نماز جنازہ اور تدفین: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ’’آپ غسل دیے گئے، کفنائے گئے اور نماز جنازہ پڑھی گئی۔ آپ شہید تھے۔‘‘ [5] علماء کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ اگر کوئی شخص مظلومیت کی حالت میں قتل کر دیا جائے تو کیا وہ شہید کے حکم میں ہوگا کہ اسے غسل نہ دیا جائے یا عام میت کے حکم میں ہوگا کہ اسے غسل دیا جائے؟ پہلا قول:… اس کو غسل دیا جائے گا۔ اس قول کی دلیل عمر رضی اللہ عنہ کا یہی مذکورہ واقعہ ہے۔[6] دوسرا قول:… نہ غسل دیا جائے گا اور نہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ صحابہ نے جو کچھ کیا اس کا جواب یہ ہے کہ مظلوم مقتول سے قطع نظر وہ شہید بھی جو معرکہ جہاد میں لڑتے ہوئے زخمی ہو اور اسے اتنا موقع مل جائے کہ کھا پی سکے یا کچھ دن تک زندہ رہے تو اسے غسل دیا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ پڑھی
[1] التاریخ الإسلامی: ۱۹/۴۴۔۴۵۔ [2] محض الصواب: ۳/۸۴۰، التہذیب: ق، ۱۷۷، ب۔ [3] سیر السلف، ابو القاسم أصفہانی، ۱/۱۶۰۔ [4] صحیح مسلم، فضائل الصحابۃ، حدیث نمبر: ۲۳۵۲، محض الصواب: ۳/۸۴۳۔ [5] الطبقات الکبرٰی، ابن سعد: ۳/ ۳۶۶، اس کی سند صحیح ہے۔ [6] الإنصاف، مرداوی: ۲/۵۰۳، محض الصواب: ۳/ ۸۴۴۔