کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 336
زندگی کے آخری لمحات
ابن عباس رضی اللہ عنہما ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی زندگی کے آخری لمحات کے حالات ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں : حملہ کے بعد میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور کہا: اے امیرالمومنین! جنت کی بشارت قبول کیجیے، جب لوگوں نے کفر کیا تو آپ اسلام لائے، جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑا تو آپ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جہاد کیا اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ سے خوش تھے، آپ کی خلافت پر کسی نے اختلاف نہ کیا اور اب آپ رخصت ہورہے ہیں تو شہادت کی موت پا رہے ہیں ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم نے کیا کہا؟ پھر دوبارہ کہو! میں نے اپنی بات پھر دہرائی۔ آپ کہنے لگے: قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں ! اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں قیامت کی ہولناکی سے نجات پانے کے لیے زمین کے سارے خزانے نچھاور کر دیتا۔[1]
اور صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ آپ نے یہ بھی کہا کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میری مصاحبت اور آپ کی رضا مندی کے متعلق جو کچھ ذکر کیا ہے تو اللہ تعالیٰ کا مجھ پر احسان ہے جس سے اس نے مجھے نوازا اور جو میری بے چینی اور غم دیکھ رہے ہو وہ تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی وجہ سے ہے۔ اللہ کی قسم! اگر میرے پاس زمین بھر سونا ہو تو عذاب الٰہی کو دیکھنے سے پہلے اس سے نجات پانے کے لیے اسے فدیہ دے دوں ۔[2]
سیّدناعمر رضی اللہ عنہ اللہ کے عذاب سے اس قدر لرزاں تھے باوجودیہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اسی دنیا میں جنت کی بشارت دے چکے تھے اور خود آپ نے حکومت اسلامیہ کے قیام، عدل، زہد اور جہاد جیسے اعمال صالحہ کے لیے اپنی ساری توانائی صرف کر دی تھی، لہٰذا مقام عبرت ہے تمام مسلمانوں کے لیے کہ وہ اللہ کے سخت عذاب اور روز قیامت کی ہولناکیوں کو یاد کریں اور خوف کھائیں ۔[3]
آپ کی زندگی کے آخری لمحات کی منظر کشی عثمان رضی اللہ عنہ اس طرح کرتے ہیں : ’’میں جان کنی کے وقت آخری لمحات میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا، ان کا سر ان کے فرزند عبداللہ کے زانو پر تھا۔ آپ نے اپنے بیٹے سے کہا: میرا رخسار زمین پر رکھ دو، عبداللہ نے کہا: کیا میرے زانو اور زمین میں کوئی فرق ہے؟ آپ نے فرمایا: تیری ماں نہ رہے، میرا رخسار زمین پر رکھ دے۔ آپ نے دوسری یا تیسری مرتبہ یہ بات کہی۔ پھر آپ نے اپنے دونوں پاؤں آپس میں ملا لیے۔ اس وقت آپ کو یہ کہتے ہوئے میں نے سنا کہ: ’’بربادی ہے میری اور میری ماں کی اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے معاف نہ کیا۔‘‘ آپ یہی بات دہراتے رہے یہاں تک کہ روح جسم سے جدا ہوگئی۔[4]
[1] صحیح التوثیق فی سیرۃ وحیاۃ الفاروق، ص:۳۸۳۔
[2] صحیح البخاری، مع الفتح، فضائل الصحابۃ، حدیث نمبر ۳۶۹۲۔
[3] التاریخ الإسلامی: ۱۹/۳۳۔
[4] صحیح التوثیق فی سیرۃ وحیاۃ الفاروق، ص:۳۸۳۔