کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 335
تھا: ’’مومنوں کے جس مال کا اللہ نے تمہیں ذمہ دار بنایا ہے اس کی تقسیم میں جانب داری نہ کرنا۔‘‘ اور ’’مال داروں کو محتاجوں پر ترجیح نہ دینا۔‘‘ ج: رعایا کے چھوٹے بڑے ہر فرد کا احترام کرنا اور اس کے سامنے خاکساری برتنا۔ اس لیے کہ اس سے انسانی ومعاشرتی تعلقات میں بھلائی و برتری کا ظہور ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے رعایا کے دل میں اپنے قائد وحاکم کی محبت بڑھ جاتی ہے۔ آپ کا کہنا تھا: ’’اللہ کے لیے مسلمانوں پر رحم کرنا، بڑوں کا احترام کرنا، چھوٹوں پر مہربانی کرنا اور علماء کی عزت و توقیر کرنا۔‘‘ د: رعایا کے سامنے کشادہ ظرفی کا ثبوت دینا۔ بایں طور کہ ان کی شکایات سنی جائیں ، اور انہیں انصاف دلایا جائے۔ ورنہ رعایا کے تعلقات کے درمیان اضطراب رونما ہوگا اور معاشرہ مختلف قسم کی پیچیدگیوں میں الجھ کر رہ جائے گا۔ ’’کمزوروں اور محتاجوں کے لیے اپنا دروازہ بند نہ رکھنا کہ طاقتور کمزور کو نگلنے لگے۔‘‘ ھ: حق بات پر ڈٹے رہنا اور ہر حال میں معاشرہ میں حق کو عام کرنے کی پوری کوشش کرنا حاکم وقت کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے کہ یہ ایسی معاشرتی ضرورت ہے جسے انسانی سماج میں نافذ کرنا قطعاً ضروری ہے۔ ’’حق پر جمے رہو، زندگی کی آخری سانس اسی پر بند ہو۔‘‘ اور کہا: ’’رعایا کا ہر فرد تمہاری نگاہ میں یکساں ہو، حق کو حق دار تک پہنچانے میں کوئی تردد نہ کرو۔‘‘ و: ظلم کی ہر شکل اور ہر نوعیت سے اجتناب لازم ہے، خاص طور سے ذمیوں کے ساتھ اس کی رعایت بہت ضروری ہے۔ اس لیے کہ اسلامی ملک میں بسنے والے مسلمان ہوں یا ذمی، سب کے ساتھ عدل و انصاف کرنا شرعی ذمہ داری ہے تاکہ پوری انسانیت اسلامی عدل کا سبق سیکھ سکے۔ آپ کی نصیحت تھی: ’’ذمیوں پر خود یا کسی دوسرے کو ظلم کرنے کی قطعاً اجازت نہ دو۔‘‘ ز: دیہاتی باشندوں کو نظر انداز کرنا قطعاً درست نہیں ، ان کی دیکھ بھال اور ان پر توجہ دینا حکومتی ذمہ داری ہے۔ آپ نے نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا: ’’دیہات کے عرب باشندوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنا، کیونکہ وہی اصل عرب اور مادۂ اسلام ہیں ۔‘‘[1] ح: مذکورہ وصیت کے ساتھ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد کے خلیفہ کے لیے ایک وصیت یہ بھی کی تھی کہ ’’میرا مقرر کیا ہوا کوئی بھی عامل آئندہ ایک سال سے زیادہ اپنے عہدہ پر باقی نہ رہے، البتہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو چار سال تک باقی رہنے دینا۔‘‘[2]
[1] الخلیفۃ الفاروق عمر بن خطاب، العانی، ص: ۱۷۳۔۱۷۵۔ [2] عصر الخلفاۃ الراشدۃ، ص:۱۰۲۔