کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 334
اور دوسری طرف اپنی بیویوں سے تعلقات قائم کر کے قلبی سکون حاصل کریں اور افزائش نسل کا سلسلہ باقی رکھیں ۔ آپ کی نصیحت میں یہ بات تھی کہ ’’انہیں سرحدوں پر زیادہ دن نہ روکنا ورنہ خدشہ ہے کہ ان کی نسل ہی ختم ہو جائے۔‘‘ اور کہا: ’’مفتوحہ ممالک کے باشندوں کے ساتھ بھلائی کرنا کیونکہ وہ دشمنوں کو دفع کرنے والے ہیں ۔‘‘ ج: مال غنیمت اور عطیہ ووظیفہ میں ہر فوجی کا جتنا حق ہے اسے وقت پر دیتے رہنا ضروری ہے تاکہ اسے یہ احساس رہے کہ ہماری اور ہماری آل و اولاد کی ایک مستقل آمدنی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ دل لگا کر جہاد کرے گا اور مالی پریشانیوں سے بے فکر ہوگا۔ آپ نے نصیحت میں کہا ہے: ’’خود ان سے زیادہ مال فے نہ لینا ورنہ انہیں ناراض کر دو گے، جب وہ عطیات لینے آئیں تو دے دینا ورنہ انہیں محتاج بنا دو گے۔‘‘ ۴: مالی واقتصادی پہلو: ا: ملکی اموال کو لوگوں کے درمیان عدل وانصاف کے ترازو سے تقسیم کرنا لازم ہے اور ان تمام طریقوں کا تدارک کرنا ضروری ہے جن سے صرف کسی ایک طبقہ میں دولت سمٹ کر رہ جاتی ہو اور دوسرے لوگ محروم رہتے ہوں ۔ یہی مفہوم ہے آپ کی اس وصیت کا کہ ’’دولت صرف مال داروں کے ہاتھوں میں نہ گردش کرتی رہے۔‘‘ ب: ذمی لوگ جب تک مقررہ جزیہ وخراج ملک کو دیتے رہیں ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنا جائز نہیں ۔ فرمایا: ’’ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالنا۔‘‘ ج: رعایا کے مالی حقوق کی ضمانت لی جائے، اس میں انتہا پسندی سے اجتناب کیا جائے۔ وصیت میں کہا گیا ہے کہ: ’’مفتوحہ ممالک کے باشندوں سے وہی کچھ لینا جو ان کی ضرورت سے زائد ہو۔‘‘ اور کہا: ’’دیہات کے عرب باشندوں میں ان کے مال داروں سے زکوٰۃ لے کر انہی کے محتاجوں میں تقسیم کر دینا۔‘‘[1] ۵: معاشرتی پہلو: ا: رعایا کا اہتمام، اس کی خبر گیری، ضروریات کی تکمیل اور عطیات ووظائف سے ان کے مالی حقوق کی پوری پوری ادائیگی ضروری ہے۔ دوران وصیت میں آپ نے فرمایا تھا: ’’جب عطیات دینے کا وقت آجائے تو انہیں واپس نہ لوٹاؤ۔‘‘ ب: ذاتی ترجیحات، طرف داری اور خواہشات کی پیروی سے اجتناب لازم ہے، کیونکہ اس سے رعایا کی کج روی، معاشرتی فساد اور انسانی تعلقات میں بے چینی وبگاڑ کا قوی اندیشہ ہے۔ اسی لیے آپ نے کہا
[1] الخلیفۃ الفاروق عمر بن الخطاب ، عانی ، ص: ۱۷۴، ۱۷۵۔