کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 333
تک پہنچانے میں کوئی تردد نہ کرو۔‘‘ اور کہا: ’’اللہ کے دین کے لیے کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہ کرنا۔‘‘ اس لیے کہ الٰہی حدود کی وجوبی تنفیذ پر شرعاً حکم آیا ہے، یہ دین کا ایک حصہ ہیں ۔ اسلامی شریعت ہی حجت ہے، لوگوں کے اعمال و افعال کو اسی پر پرکھا جائے گا، شریعت سے غفلت برتنا گویا دین اور معاشرے کو تباہ و برباد کرنا ہے۔
ج: اس وصیت میں استقامت اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی ہے، کیونکہ یہ چیز دین و دنیا کی ان اہم ضروریات میں سے ہے جسے سب سے پہلے حاکم وقت کو اپنے قول وعمل سے ثابت کرنا چاہیے، پھر یہ ذمہ داری رعایا کی ہے۔ ’’اپنے آپ کو نصیحت کرتے رہو۔‘‘ اور کہا: ’’ان اعمال سے اللہ کی رضا مندی اور آخرت کی بھلائی کے طالب بنو۔‘‘
۲: سیاسی پہلو:
ا: عدل و انصاف کو لازم پکڑنے کی نصیحت ہے، اس لیے کہ یہی حکومت کی بنیاد ہے۔ رعایا میں عدل وانصاف کی تنفیذ حکومت کی مضبوطی، رعب و دبدبہ اور سیاسی ومعاشرتی سنجیدگی عطا کرتی ہے۔ اس سے لوگوں کے دلوں میں ایک طرف حاکم کا خوف اور دوسری طرف اس کا احترام جاگزیں ہوتا ہے۔ نصیحت کرتے ہوئے آپ نے کہا: ’’رعایا کے ساتھ عدل وانصاف کرنا۔‘‘ اور کہا: ’’رعایا کا ہر فرد تمہاری نگاہ میں یکساں ہو۔‘‘
ب: اولین مہاجرین وانصار پر خصوصی توجہ کی نصیحت ہے، اس لیے کہ انہی لوگوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا، اسلامی عقیدہ اور اس کی بنیادوں پر جو سیاسی نظام وجود میں آیا اسے انہی کے کندھوں نے سہارا دیا۔ یہی اس کے پاسبان اور محافظ رہے۔ پس وہ اس خصوصی اعزاز کے مستحق ہیں ۔ آپ نے نصیحت میں فرمایا: ’’اولین مہاجرین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، ان کے سبقت الی الاسلام کے حقوق پہچاننا، انصار کے ساتھ بھلائی کرنا، ان کی اچھائیوں کی قدر کرنا۔‘‘
۳: فوجی پہلو:
ا: اس وصیت میں اسلامی فوج پر خصوصی توجہ دینے، اسے مناسب ڈھنگ سے تیار کرنے، ملکی امن وسلامتی کو برقرار رکھنے میں ان کے مؤثر کردار اور عظیم ذمہ داری کا انہیں احساس دلانے اور فوج کی تکمیلِ ضروریات کی اہمیت کو نمایاں جگہ دی گئی ہے۔ ’’ان کی ضروریات کی تکمیل میں لگے رہنا اور سرحدوں کی حفاظت کرنا۔‘‘
ب: حاکم وقت کو تعلیم دی گئی ہے کہ مجاہدین کو ان کے اہل وعیال سے دور سرحدوں پر لمبی مدت تک ٹھہرانے سے اجتناب کریں ، اس لیے کہ اہل وعیال سے لمبی غیر حاضری کے نتیجے میں جنگجوؤں کو اکتاہٹ و بے چینی اور مقصد کے حصول میں ناکامی لاحق ہو سکتی ہے، چنانچہ مخصوص ایام میں متعینہ دنوں کے لیے انہیں چھٹی دینا ضروری ہے، تاکہ ایک طرف وہ آرام کر سکیں اور دوبارہ نئے عزم اور نئی قوت کے ساتھ میدان میں اتریں