کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 332
بری کمائی ہے کہ اس کی قسمت میں اللہ کے دشمن کی دوستی آئے جو اللہ کی نافرمانیوں کی طرف ہمہ وقت دعوت دیتا ہے۔ حق پر جمے رہو، زندگی کی آخری سانس اسی پر بند ہو، اپنے آپ کو نصیحت کرتے رہو۔ اللہ کے واسطے مسلمانوں پر رحم کرنا، بڑوں کا احترام کرنا، چھوٹوں پر مہربانی کرنا اور علماء کی عزت و توقیر کرنا، مسلمانوں کو مارنے اور ذلیل کرنے سے پرہیز کرنا، خود ان سے زیادہ مال فے نہ لینا، ورنہ انہیں ناراض کر دو گے۔ جب عطیات دینے کا وقت آجائے تو انہیں واپس نہ لوٹاؤ ورنہ انہیں محتاج بنا دو گے۔ سرحدوں پرا نہیں زیادہ دن نہ روکنا ورنہ خدشہ ہے کہ ان کی نسل ہی ختم ہو جائے۔ دولت صرف مالداروں کے ہاتھوں میں نہ گردش کرتی رہے، کمزوروں اور محتاجوں کے لیے اپنا دروازہ بند نہ رکھنا کہ طاقتور کمزور کو نگلنے لگے۔ یہ میری وصیت ہے اور اس پر اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم کو السلام علیکم عرض کرتا ہوں ۔‘‘[1] اس وصیت کا ایک ایک کلمہ اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت وسیاست کے تمام مسائل پر سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی گہری نظر تھی اور آپ کی حکومت ایک نظام اور بہترین طریقہ عمل کی پابند تھی۔[2] یہ وصیت انتہائی اہم امور پر مشتمل ہے۔ اسے ایک گرانقدر دستاویزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ اس میں ایک کامیاب حکومت کے ایسے بنیادی اصول وضوابط بتائے گئے ہیں جو دینی، سیاسی، فوجی، اقتصادی اور معاشرتی ہر پہلو سے مکمل ہیں ۔ ان میں اہم ترین یہ ہیں : ۱: مذہبی پہلو: مذہبی پہلو میں چند باتیں نمایاں ہیں ، مثلاً: ا: ہمہ وقت اللہ کے تقویٰ، ظاہر و باطن اور قول وعمل میں خشیت الٰہی کے شدید اہتمام کی وصیت کی گئی ہے۔ اس لیے کہ جس آدمی کے دل میں اللہ کا تقویٰ ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو ہلاکتوں سے بچائے گا اور جس کے دل میں خشیت الٰہی ہوگی اس کی وہ حفاظت کرے گا اور گناہوں سے دور رکھے گا۔ چنانچہ کہا: ’’میں تمہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں جو یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔‘‘ اور ’’اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، گناہوں کی پاداش میں اس کی پکڑ اور غصہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ اور کہا: ’’لوگوں کے معاملات میں اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ ب: اس بات کی وصیت ہے کہ ’’حدود الٰہی کی تنفیذ میں قریبی اور اجنبی میں کوئی تفریق نہ کرنا۔‘‘ ’’حق کو حق دار
[1] الطبقات، ابن سعد: ۳/ ۳۳۹، البیان والتبیین، جاحظ: ۲/۴۶، جمہرۃ خطب العرب: ۱/۲۶۳، الکامل فی التاریخ: ۲/۲۱۰، الخلیفۃ الفاروق عمر بن خطاب، عانی، ص:۱۷۱،۱۷۲۔ [2] الإدارۃ الإسلامیۃ فی عصر عمر بن الخطاب، ص:۳۸۱۔