کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 330
کے ساتھ ہو جانا جن میں عبدالرحمن بن عوف ہوں گے، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی نیکی اور تقویٰ شعاری کا ذکرکرتے ہوئے کہا: عبدالرحمن بن عوف کیا ہی بہتر رائے دینے والے ہیں ، نیک اور ہدایت یاب ہیں ، اللہ کی طرف سے ان کی محافظت ہو رہی ہے، تم ان کی باتیں مانو۔[1] و: پاک طینت و تقویٰ شعار جماعت کے ذریعے انتخابی کارروائی کی نگرانی اور ہنگامہ آرائی پر قدغن: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور ان سے کہا: اے ابوطلحہ! اللہ نے تم لوگوں کے ذریعہ سے اسلام کو سربلند کیا، اپنے قبیلہ کے پچاس انصاری صحابہ کو ساتھ لے کر اس جماعت (مجلس شوریٰ) کی نگرانی کرو، یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے میں سے کسی ایک کو منتخب کر لیں ۔[2] اور مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے کہا: جب تم لوگ مجھے میری قبر میں رکھ دو تو اس چھ رکنی جماعت کو ایک گھر میں بند کر دینا، یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے میں سے کسی ایک کو منتخب کر لیں ۔[3] الغرض آپ زندگی کے آخری لمحات میں بھی جب کہ زخموں سے چور اور جان کنی کے عالم میں تھے، مسلمانوں کے معاملات کو بہتر سے بہتر بنانے سے غافل نہ ہوئے اور ایسے شورائی نظام کی بنیاد رکھی جسے آپ سے پہلے کسی نے انجام نہ دیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شورائی نظام کا ثبوت قرآن اور سنت میں موجود ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلامی معاشرہ میں اس کا عملی نفاذ کیا ہے، اس لیے اصل دلیل کی رو سے عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کو بدعت نہیں کہا جا سکتا ہے، البتہ آپ کی جدت طرازی یہ رہی کہ آپ نے شورائی نظام کو ایک اصولی شکل دے دی کہ اسی بنیاد پر خلیفہ کا انتخاب عمل میں آئے گا اور اصولی شکل یہ تھی کہ شورائیت کے لیے مخصوص تعداد میں مخصوص (اصحاب حل و عقد) لوگوں کو منتخب کیا۔ پس یہی جدت طرازی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد صدیقی میں نہ تھی، بلکہ سب سے پہلے اسے عمر رضی اللہ عنہ نے انجام دیا اور یہ اقدام بہت ہی بہتر رہا کیونکہ اس وقت صحابہ کرام کے جو حالات تھے ان کے لیے اس سے بہتر اور کوئی مناسب طریقہ نہیں تھا۔[4] ۳۔ اپنے بعد کے خلیفہ کے لیے سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی وصیت: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد امت مسلمہ کی قیادت کرنے والے خلیفہ کو کافی اہم وصیت کی، آپ نے فرمایا: ’’میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں جو یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اولین مہاجرین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، ان کی سبقت الی الاسلام کے حقوق کو پہچاننا، انصار کے ساتھ بھلائی کرنا، ان کی اچھائیوں کی قدر کرنا اور کوتاہیوں سے چشم پوشی کرنا، مفتوحہ ممالک کے باشندوں سے اچھا سلوک کرنا کیونکہ یہ دشمنوں کو دفع کرنے والے اور مال غنیمت جمع کرنے والے ہیں ۔ صرف وہی کچھ لینا جو ان کی ضرورت سے زائد ہو، دیہات کے عرب باشندوں سے خوش
[1] تاریخ الطبری: ۵/۲۲۵۔ [2] تاریخ الطبری ۵/۲۲۵۔ [3] تاریخ الطبری ۵/۲۲۵۔ [4] أولیات الفاروق، السیاسیۃ: ص۱۲۷۔