کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 329
لیکن یہ روایت غیر مستند روایات میں سے ہے، اس کا تعلق ان غیر معقول اور انوکھی روایات سے ہے جنہیں ابو مخنف (رافضی) نے صحیح نصوص اور صحابہ کی بے داغ و پاک باز سیرتوں کے برخلاف ذکر کیا ہے۔ یہ روایت بالکل جھوٹی اور منکر ہے۔ کیونکہ عمر رضی اللہ عنہ ان لوگوں کے بارے میں ایسا کیوں کر کہہ سکتے ہیں جب کہ آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ لوگ صحابہ کرام میں سب سے زیادہ پاک باز ہیں اور آپ ہی نے ان کی افضلیت اور مقام و مرتبہ کو دیکھتے ہوئے یہ عظیم کام سونپا تھا۔[1] ابن سعد کی روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے انصار سے کہا: ان لوگوں کو تین دنوں کے لیے ایک گھر میں چھوڑ دو اگر کوئی بہتر نتیجہ لے کر نکلتے ہیں تو بہتر ہے ورنہ سب کی گردن مار دو۔[2] یہ روایت بھی سنداً منقطع ہے، نیز اس کی سند میں سماک بن حرب ہے جو ضعیف ہے اور آخری عمر میں حافظہ خراب ہوگیا تھا۔[3] اس باب میں ابن سعد کی وہ روایت سب سے زیادہ صحیح ہے جس کے تمام راوی ثقہ ہیں ، اس میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے صہیب رومی رضی اللہ عنہ سے کہا: تین دن لوگوں کی امامت کرو اور اس چھ نفری جماعت کو ایک گھر میں چھوڑ دو، یہ لوگ جسے خلیفہ منتخب کر لیں (اس کی اطاعت کرو) اور جو ان کی مخالفت کرے اسے قتل کر دو۔[4] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ اس اثر میں اس آدمی کو قتل کرنے کا حکم دیتے ہیں جو ان منتخب اراکین کے انتخاب کی مخالفت کرے، مسلمانوں کے اتحاد کو توڑے اور ان میں گروہ بندی پیدا کرے اور عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت میں کہی تھی: (( مَنْ أَتَاکُمْ وَأَمْرُکُمْ جَمِیْعٌ عَلٰی رَجُلٍ وَّاحِدٍ ، یُرِیْدُ أَنْ یَّشُقَّ عَصَاکُمْ أَوْ یُفَرِّقُ جَمَاعَتَکُمْ فَاقْتُلُوْہُ۔)) [5] ’’جو شخص تمہارے پاس آئے، اس حال میں کہ تم اپنے میں سے کسی ایک کی امارت پر متفق ہو چکے ہو اور وہ آکر تمہارے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا چاہتا ہو اور تمہاری جماعت کو گروہوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہو تو اسے قتل کر دو۔‘‘ ھ: اختلاف کے وقت فیصل کون ہو؟ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے یہ نصیحت کی تھی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ان چھ لوگوں کے ساتھ مجلس شوریٰ میں شریک ہوں گے، البتہ انہیں خلافت کے سلسلہ میں کوئی اختیار حاصل نہ ہوگا۔ اور ان سب سے کہا کہ اگر تین آدمی اپنے کسی ایک کو، اور تین اپنے کسی ایک کو خلافت کے لیے منتخب کر لیں تو عبداللہ بن عمر کو فیصل بنانا۔ جس کے حق میں وہ فیصلہ دے دیں اسے چاہیے کہ اپنے آدمی کو امیر منتخب کر لے اور اگر عبداللہ بن عمر کا فیصلہ منظور نہ ہو تو ان لوگوں
[1] مرویات أبی مخنف من تاریخ الطبری، د/ یحییٰ الیحیٰ، ص:۱۷۵۔ [2] الطبقات الکبرٰی: ۳/۳۴۲۔ [3] مرویات أبی مخنف من تاریخ الطبری، ص:۱۷۶۔ [4] الطبقات الکبرٰی ۳/۳۴۲۔ [5] صحیح مسلم: ۳۔ ۶۰؍۱۸۵۲۔