کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 323
۴: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی وفات سے متعلق ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا خواب: ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، انہوں نے کہا کہ: میں نے خواب دیکھا کہ عمدہ نسل کے بہت سارے گھوڑوں کو میں لیے ہوئے ہوں ، لیکن سب یکے بعد دیگرے کمزور اور سست ہوتے چلے گئے، صرف ایک اپنی حالت پر باقی رہا۔ میں اسے لے کر ایک پہاڑ کے پاس آیا جس پر کھڑا ہونا ممکن نہ تھا، میں نے دیکھا کہ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ، وہ عمر رضی اللہ عنہ کو اشارہ کر کے اپنی طرف بلا رہے ہیں ۔ راوی کہتا ہے میں نے کہا: آپ اس خواب کی اطلاع عمر رضی اللہ عنہ کے نام لکھ کر کیوں نہیں بھیج دیتے؟ انہوں نے کہا: میں ان کو ان کی موت کی خبر نہیں دینا چاہتا۔[1] ۵: مدینہ میں سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی زندگی کا آخری خطبہ جمعہ: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے ۲۱ ذی الحجہ ۲۳ہجری کو اپنی زندگی کا جو آخری خطبہ جمعہ دیا تھا اس کے کچھ حصے کو عبدالرحمن ابن عوف رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا ہے، اس میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بارے میں اپنے خواب کو لوگوں سے بیان کیا اور خود ہی اس کی تعبیر بھی بتائی۔ خطبہ کے دوران کہا: میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور میں اسے اپنی موت کا پیغام سمجھتا ہوں ۔ میں نے دیکھا ہے کہ ایک مرغے نے مجھے دو ٹھونگیں ماری ہیں اور کچھ لوگ مجھ سے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کی نامزدگی کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین، خلافت اور اسلامی شریعت کو ضائع نہیں کرے گا، پس اگر میں جلد ہی اس دنیا سے چل بسوں تو ان چھ افراد کی شورائیت سے خلافت نافذ ہو گی جن سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آخری دم تک خوش تھے۔ [2] ۶: زخمی ہونے سے قبل سیّدناعمر اور حذیفہ رضی اللہ عنہما کی ملاقات: سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی شہادت سے چار دن پہلے، یعنی ۲۳ ذی الحجہ بروز اتوار دو صحابہ یعنی حذیفہ بن یمان اور سہل بن حنیف رضی اللہ عنہما سے ملاقات کی۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ عراق میں دریائے دجلہ کے پانی سے سیراب کی جانے والی کھیتیوں اور سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ دریائے فرات کے پانی سے سیراب کی جانے والی کھیتیوں کا خراج متعین کرنے پر مقرر تھے۔ آپ نے ان دونوں سے کہا: تم دونوں نے کیسے خراج کا اندازہ مقرر کیا ہے؟ مجھے ڈر ہے کہ کہیں زمین کے خراج میں تم نے وہ اندازہ نہ مقرر کر لیا ہو جس کی اس میں صلاحیت نہیں ؟ دونوں نے کہا: نہیں ، بلکہ ہم نے اتنا ہی اندازہ لگایا ہے جتنی اس میں صلاحیت ہے۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے صحیح سالم زندہ رکھا تو عراق کی بیواؤں کو اس حال میں چھوڑوں گا کہ وہ میرے بعد کسی کی محتاج نہ رہ جائیں گی۔ لیکن اللہ کا فیصلہ کچھ اور تھا اس گفتگو کے چار دن بعد آپ نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔[3]
[1] الطبقات الکبرٰی، ابن سعد: ۳/۳۳۲ اس کی سند صحیح ہے۔ [2] الموسوعۃ الحدیثیۃ، مسند أحمد، حدیث نمبر: ۸۹ اس کی سند صحیح ہے۔ [3] الخلفاء الراشدون، خالدی، ص:۸۲، صحیح البخاری، حدیث نمبر ۳۷۰۰۔