کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 318
۲۲ہجری میں اپنی فوج لے کر برقہ کی طرف چلے۔ اسکندریہ سے برقہ تک کا راستہ نہایت سرسبز و شاداب اور گھنی آبادی والا تھا۔ اس لیے وہاں تک پہنچنے میں آپ کو دشمن کی کسی سازش کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور جب وہاں پہنچے تو لوگوں نے جزیہ کی ادائیگی پر مصالحت کر لی۔ اس کے بعد برقہ کے لوگ خود بخود والی مصر کے پاس جاتے اور اپنا خراج جمع کر آتے تھے۔ مسلمانوں کی طرف سے کسی کو ان کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ یہ لوگ مغرب میں سب سے زیادہ سادہ دل لوگ تھے، ان کے یہاں کوئی فتنہ و فساد نہ تھا۔
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ یہاں سے نکلے تو طرابلس کی طرف بڑھے، جو محفوظ و مضبوط قلعوں والا شہر تھا، وہاں رومی فوج کی بہت بڑی تعداد مقیم تھی۔ اس نے مسلمانوں کی آمد کی خبر سن کر اپنے قلعوں کے دروازے بند کر لیے اور مجبوراً مسلمانوں کے محاصرہ کو برداشت کرنے لگے۔ یہ محاصرہ ایک ماہ تک جاری رہا، لیکن مسلمانوں کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ملی۔ طرابلس کے عقب میں شہر سے متصل سمندر بہتا تھا اور سمندر وشہر کے درمیان کوئی فصیل قائم نہ تھی۔ مسلمانوں کی ایک جماعت کو یہ راز معلوم ہوگیا اور پیچھے سے سمندر کی طرف سے شہر میں داخل ہوگئی۔ انہوں نے زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا، اب رومی فوج کے سامنے اپنی اپنی کشتیوں میں بھاگ کر پناہ لینے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ تھا، وہ جونہی بھاگے، پیچھے سے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ان پر حملہ کر دیا ان میں سے اکثر تہ تیغ کر دیے گئے، الا یہ کہ جو کشتیوں سے بھاگ نکلے، شہر میں موجود سامان و جائداد کو مسلمانوں نے مال غنیمت کے طور پر حاصل کیا۔
طرابلس سے نمٹنے کے بعد عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کو قرب وجوار کے علاقوں میں پھیلا دیا۔ آپ کا ارادہ تھا کہ مغرب کی سمت فتوحات مکمل کر کے تیونس اور افریقہ کا رخ کریں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں سیّدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس خط لکھا۔ جب کہ عمر رضی اللہ عنہ اسلامی لشکر کو نئے محاذ پر بھیجنے سے ہچکچاتے تھے اور خاص طور پر ایسی حالت میں جب کہ شام سے طرابلس تک تیزی سے فتوحات کے باعث مفتوحہ علاقوں کی طرف سے ابھی آپ بالکل مطمئن نہ ہوئے تھے۔ اس لیے آپ نے اسلامی لشکر کو طرابلس میں ٹھہر جانے کا حکم دیا۔ اس طرح عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت کا دائرہ دور دراز علاقوں کی سرحدوں کو چھونے لگا۔ اسلامی سلطنت مشرق میں دریائے جیحون اور دریائے سندھ سے لے کرمغرب میں افریقہ کے صحراؤں تک اور شمال میں ایشیائے کوچک کے پہاڑوں اور آرمینیہ سے لے کر جنوب میں بحر الکاہل اور نوبہ تک ایک عالمی ملک کی شکل میں دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوئی، جس میں مختلف اقوام، ادیان وملل اور تہذیب و تمدن نے زندگی پائی اور سب نے اسلام کے سایۂ عدل ورحمت میں امن وسکون کی زندگی گزاری۔ وہ دین اسلام جس نے اپنے عقائد وعبادات اور تہذیب و تمدن کے مخالفین کو ہزاروں مخالفتوں کے باوجود اس دنیا میں مکمل حقوق عطا کیے اور ان کی زندگی کا پورا پورا احترام کیا۔[1]
[1] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص:۲۳۱۔