کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 317
عمرو رضی اللہ عنہ نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بلایا، جب وہ آپ کے قریب آئے تو اپنے گھوڑے سے اترنا چاہا، عمرو رضی اللہ عنہ نے انہیں اترنے سے روک دیا اور کہا: مجھے اپنے نیزہ کی انی دو، عبادہ نے نیزہ آپ کی طرف بڑھایا۔ عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنے سر سے عمامہ اتارا اور نیزے کی انی میں باندھ دیا اور بطور علم انہیں نیزہ واپس کر کے رومیوں سے لڑائی کے محاذ پر بھیج دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی دن ان کے ہاتھوں اسکندریہ کو فتح کرایا۔[1] ایک اور روایت میں ہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے ان رومیوں سے جنگ کے بارے میں کئی بار سوچا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ رومیوں کی آخری طاقت کی سرکشی کا سر وہی لوگ توڑ سکتے ہیں جنہوں نے ان کے پیشروؤں کا سر توڑا ہے، آپ کا اشارہ انصار کی طرف تھا۔ اس کے بعد آپ نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کے ہاتھ میں علم دیا اور اللہ نے انہیں فتح نصیب کی۔[2] اور ابن عبدالحکم روایت کرتے ہیں کہ نو مہینے اسکندریہ کا محاصرہ جاری رہا اور ۲۰ہجری میں ماہ محرم کے آغاز میں فتح ہوا۔[3] عیسوی سن کے مطابق ۲۱ دسمبر ۶۴۰ء میں ، جب کہ بٹلر فتح مصر کی تاریخ لکھتے ہوئے اس تحقیق پر پہنچا ہے کہ شہر اسکندریہ کا محاصرہ جولائی ۶۴۰ء کے آخر میں شروع ہوا اور ۸ نومبر ۶۴۱ء مطابق ۷ ذی الحجہ ۲۱ہجری میں وہاں کے باشندوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ میرے خیال میں یہی تحقیق درست ہے، کیونکہ عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے نام جو خط آیا تھا اس میں لکھا تھا کہ ’’تم دو سال سے لڑ رہے ہو۔‘‘ اس حساب سے اگر دیکھا جائے تو دسمبر ۶۳۹ء جس میں عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے عریش پر چڑھائی کی تھی، اس وقت سے ۶۴۱ء تک جس میں اسکندریہ فتح ہوا، دو سال کی مدت لگ جاتی ہے۔ اسکندریہ فتح ہونے کے بعد عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے وہاں کے لوگوں کو نہ تو قتل کیا اور نہ ہی قیدی بنایا بلکہ انہیں بھی باشندگان بابلیون کی طرح امان دے کر جزیہ وصول کرنا منظور کر لیا۔ پھر جب وہاں فساد کے اندیشے ختم ہوگئے اور آپ کو اطمینان ہوگیا تو فوج کا ایک محافظ دستہ وہاں چھوڑ کر بقیہ دستوں کو مصر میں رومیوں کے دیگر قلعوں اور پناہ گاہوں کو فتح کرنے کے لیے ادھر ادھر پھیلا دیا، اس بحر متوسط کا پورا ساحلی علاقہ اور رشید و دمیاط جیسے اس کے بڑے بڑے شہروں پر فتح مکمل کر لی اور اپنے دائرہ اقتدار کو ڈیلٹائے مصر اور صعید تک وسیع کر دیا۔[4] ۶: فتح برقہ وطرابلس: مصر فتح کر لینے اور وہاں امن وامان قائم ہو جانے کے بعد عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ مغرب کی سمت بڑھے، تاکہ ادھر سے مفتوحہ علاقوں کے لیے کوئی خطرہ باقی نہ رہے، کیونکہ برقہ اور طرابلس میں روم کی کچھ فوج قلعہ بند تھی اور موقع ملنے پر لوگوں کے ورغلانے سے وہ مصر میں مسلمانوں پر دھاوا بول سکتے تھے، چنانچہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ
[1] الأنصار فی العصر الراشدی، ص:۲۲۸۔ [2] ایضًا، ص:۲۱۲۔ [3] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص:۲۲۹۔ [4] ایضًا