کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 316
جہاں سے ایک راستہ اسکندریہ کو جاتا تھا، وہ یہی راستہ تھا جو کریون سے اسکندریہ تک ملا ہوا تھا۔[1] جب محاصرہ کئی مہینوں تک طویل ہوگیا تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ اندیشے پیدا ہونے لگے کہ کہیں آپ کی فوج اکتا تو نہیں گئی یا دشمن سے مقابلہ کرنے کی اس میں ہمت نہیں رہی۔ اس لیے آپ نے چند فوجی دستے تیار کیے اور ڈیلٹائے نیل اور صعید کے گاؤں اور بستیوں میں انہیں ترکتازی کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کیا، لیکن دوسری طرف یہ محاصرہ جوں جوں طویل ہوتا جا رہا تھا خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی ناراض ہو رہے تھے اور اسلامی لشکر کی تیاریوں اور جنگی کارروائی کے بارے میں مختلف قسم کے شبہات و بدگمانیاں آپ کے دل میں پیدا ہو رہی تھیں ۔ آپ سوچنے لگے تھے کہ شاید تاخیر کی وجہ اسلامی فوج کی عیش پرستی ہے۔[2] اس بات کو آپ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے نام تحریر کیے ہوئے خط میں صراحت سے لکھا: حمد وصلاۃ کے بعد! میں حیران ہوں کہ اب تک تم مصر فتح نہیں کر سکے، حالانکہ دو سال سے لڑ رہے ہو۔ اس کی وجہ اس بات کے علاوہ کیا ہو سکتی ہے کہ تمہارے دلوں میں بزدلی پیدا ہوگئی ہے یا تم دنیا کی محبت میں اس طرح پھنس گئے ہو جس طرح تمہارا دشمن مبتلا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی صرف اسی وقت مدد کرتا ہے جب ان کے دلوں میں سچی لگن ہو۔ میں نے چار مرد آہن (زبیر اور ان کے ساتھی) تمہاری مدد کے لیے بھیجے تھے اور تمہیں مطلع کیا تھا کہ میرے علم کے مطابق ان میں سے ہر ایک ہزار مردوں کے برابر ہے، یہ اور بات ہے کہ ان کو بھی دنیا کی محبت نے اسی طرح بدل دیا ہو جس طرح دوسروں کو بدل دیا ہے۔ جب تمہیں میرا یہ خط ملے فوراً لوگوں کو جمع کر کے تقریر کرو اور لوگوں کو ترغیب دو کہ سچی لگن اور پامردی سے لڑیں ، ان چاروں مرد آہن کو فوج کے سامنے رکھو اور فوج کو حکم دو کہ تن واحد کی طرح دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ یہ حملہ جمعہ کے دن زو ال آفتاب کے وقت ہو کیونکہ اس وقت اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے اور دعائیں قبول ہوتی ہیں ، اس وقت لوگ اللہ کے سامنے گڑ گڑائیں اور اس سے فتح کے لیے دعائیں مانگیں ۔ جب عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس یہ خط آیا تو آپ نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور انہیں خط پڑھ کر سنایا پھر چاروں بہادروں کو بلایا اور انہیں فوج کے آگے کیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ غسل کر کے دو رکعت نماز پڑھ لیں ، پھر خلوص وللہیت سے اللہ کی طرف دست بدعا ہوں اور فتح کی درخواست کریں ، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اللہ نے انہیں فتح نصیب کی۔[3] ایک روایت یہ بھی ہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مسلمہ بن مخلد انصاری رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ان لوگوں سے جنگ کے بارے میں مجھے مشورہ دو تو مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میری رائے ہے کہ آپ اصحاب رسول میں سے ایسے آدمی کو ڈھونڈیں جسے جنگی مہارت و تجربہ حاصل ہو اور اسے مسلمانوں کا قائد بنا کر لڑائی چھیڑ دیں ، وہ براہ راست لڑے گا اور جنگ کے تقاضوں کو پورا کرے گا۔ عمرو رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اس لائق کون ہے؟ انہوں نے کہا: عبادہ بن صامت۔
[1] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، حمدی شاہین، ص:۲۲۵۔ [2] ایضًا، ص: ۲۲۷۔ [3] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص:۲۲۸۔