کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 315
ابن عبدالحکم کے ان چند کلمات کے علاوہ کسی نے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ وہ لکھتے ہیں : پھر کریون میں لڑے، دس دنوں سے زیادہ لڑائی چلتی رہی۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما مقدمۃ الجیش پر تھے اور عمرو رضی اللہ عنہ کے غلام ’’وردان‘‘ جنگ کا علم اٹھائے تھے۔ عمرو رضی اللہ عنہ نے اس دن نماز خوف ادا کی، پھر اللہ نے مسلمانوں کو فتح دی۔ اس معرکہ میں مجاہدین اسلام نے بہت سے رومی سپاہیوں کو قتل کیا اور پیچھے دھکیلتے ہوئے انہیں اسکندریہ تک پہنچا دیا۔ جنگ کا نقشہ کھینچتے ہوئے ابن عبدالحکم نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما اور ان کے والد کے غلام وردان کی بہادری کا واقعہ بھی درج کیا ہے۔[1] جس وقت مسلمانوں نے اسکندریہ پر فتح کا پرچم لہرایا اس وقت اسے دارالحکومت کی حیثیت حاصل تھی اور قسطنطنیہ کے بعد بارنطینی رومی بادشاہت کا دوسرا بڑا شہر مانا جاتا تھا، نیز دنیا کا سب سے پہلا تجارتی شہر تھا، بارنطینی یہ بات اچھی طرح جان چکے تھے کہ اگر اس شہر پر مسلمانوں کا غلبہ ہوگیا تو اس کے بہت بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔ یہی غم انہیں کھائے جا رہا تھا حتیٰ کہ پریشانی کے عالم میں ہرقل نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر اسکندریہ پر عرب غالب ہوگئے تو رومی بادشاہت کا سقوط اور اس کی ہلاکت یقینی ہے۔ [2] بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ اسکندریہ میں مسلمانوں سے لڑنے کے لیے اس نے بہ نفس نفیس تیاری کی تھی، لیکن جب تیاری مکمل کر چکا تو اسے مرگی کا دورہ پڑگیااور مر گیا اور اللہ مسلمانوں کی طرف سے اس کے لیے کافی ہوگیا۔[3] ہرقل کے مر جانے کے بعد بیزنطی حکومت لڑکھڑانے لگی، تو اس کے دونوں بیٹوں ، قسطنطین اور ہرقل دوم (ہرقلیانوس) نے مل کر اس کی باگ ڈور سنبھالی اور ماضی کی وراثت کو برقرار رکھنے کی خاطر ’’ہرقلیانوس‘‘ کی ماں ’’مارٹینا‘‘ ان دونوں کی شریک کار رہی، لیکن ہرقل کو مرے ہوئے ابھی پورے سو دن بھی نہ گزرے تھے کہ اس کا لڑکا قسطنطین بھی اس دنیا سے چل بسا۔ اس کے مرجانے کے بعد شکوک وشبہات کی انگلیاں ہرقلیانوس کی ماں مارٹینا کی طرف اٹھنے لگیں کہ شاید تنہا اپنے لڑکے کو بادشاہت کی گدی پر بٹھانے کے لیے اس نے ایسا کیا ہے، جس کے نتیجہ میں مارٹینا کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑک اٹھی اور کئی مہینے شہر فتنوں کے شعلوں میں جلتا رہا، بالآخر ملک میں اس وقت امن بحال ہوا جب قسطنطین کا لڑکا کونسٹانس اپنے چچا ہرقلیانوس کی مشارکت سے بیزنطی بادشاہت کی قیادت کرنے لگا۔[4] اسکندریہ اپنی فصیلوں کی استواری، ضخامت، محل وقوع اور محافظوں کی کثرت کی وجہ سے دفاعی اعتبار سے اپنا منفرد مقام رکھتا تھا۔ اس کے شمال میں (بحرمتوسط) بہتا تھا، جو اس وقت رومیوں ہی کے قبضہ میں تھا۔ جنوب میں بحیرئہ مریوط تھا، جس کا عبور کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن تھا، یہ قدیم زمانے میں دریائے نیل کی شاخوں میں سے ایک شاخ کا نام (نزعۃ الثعبان) تھا، مغرب سے اسکندریہ کو اپنی لپیٹ میں لیے تھا۔ صرف مشرق کی سمت باقی تھی
[1] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، حمدی شاہین، ص:۲۲۶۔ [2] ایضًا [3] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، حمدی شاہین، ص:۲۲۶۔ بحوالۂ ابن عبدالحکم [4] ایضًا ، ص:۲۲۷۔