کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 314
’’نقیوش‘‘ نام کا محفوظ ومضبوط شہر آباد تھا۔[1] اس کے قلعے مضبوط اور فصیلیں مستحکم تھیں ، عمرو رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ اگر اسے نظر انداز کر کے آگے گزر جاتے ہیں تو یہاں خطرہ باقی رہے گا۔ رومیوں نے اپنے قلعوں میں پناہ لینے کے بجائے انہیں خالی چھوڑ دیا اور آگے بڑھ کر کشتیوں میں سوار ہوگئے، تاکہ وہیں سے مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑیں اور اپنے شہر کے قریب نہ آنے دیں ، لیکن یہ چیز مجاہدین اسلام کے حق میں مفید ثابت ہوئی، انہوں نے اپنے تیروں اور برچھیوں سے رومیوں کو چھلنی کرنا شروع کر دیا اور دریا ہی میں انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ وہ لوگ اپنی کشتیوں پر سوار ہو کر اسکندریہ کی طرف پیٹھ پھیر کر بھاگے اور جو رومی قلعوں میں بچ گئے تھے، انہوں نے بہت جلد اطاعت قبول کر لی اور پھر مسلمان فتح مند ہو کر شہر میں داخل ہوگئے۔ وہاں چند دن گزار کر اپنے اردگرد کے دشمنوں پر شکنجہ کستے اور مصالحت کرتے رہے۔[2] عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک قائد شریک بن سمی رضی اللہ عنہ کو بھگوڑے رومیوں کا تعاقب کرنے کے لیے بھیجا، آپ نے اپنے ساتھ چھوٹا سا فوجی دستہ لے کر ان کا تعاقب کیا اور انہیں پا لیا۔ رومیوں نے دیکھا کہ یہ تھوڑے سے لوگ ہیں کیوں نہ انہیں گھیر کر ان کا کام تمام کر دیا جائے۔ شاید یہ سوچ ہی رہے تھے کہ شریک کی ایک ٹیلے کے پاس ان سے جھڑپ ہوگئی۔ بعد میں اس ٹیلے کی نسبت شریک کی طرف کی جانے لگی اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بھیج کر مزید امدادی فوج کا مطالبہ کیا۔ کسی طرح رومیوں کو امدادی فوج کی آمد کی اطلاع مل گئی، اس لیے وہاں سے فرار اختیار کی،[3] وہاں سے چھ میل کی دوری پر سُلطیس کے پاس جو دمنہور کے جنوب میں واقع ہے، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور رومیوں کی فوج میں سخت لڑائی ہوئی۔ اس میں رومیوں نے شکست اٹھائی اور پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔[4] ان فتوحات کا تذکرہ کرتے ہوئے ہمیں مؤرخین پر حیرت ہوتی ہے اور افسوس کرنا پڑتا ہے کہ یہ اور اس طرح کے دیگر معرکے جن میں مسلمانوں نے اپنی مختصر سی فوجی قوت لے کر بڑی بڑی رومی افواج پر حملہ کیا جو تعداد اور اسلحہ ہر اعتبار سے مضبوط اور مسلمانوں پر بھاری تھے اور وہ معرکے جو کئی کئی دنوں تک جاری رہے، مسلم مؤرخین نے انہیں چند سطروں یا چند حروف میں سمیٹ دیا ہے۔ جب کہ ان میں سے بعض نے قادسیہ، یرموک یا نہاوند کی تاریخ لکھتے ہوئے دسیوں صفحات سیاہ کر ڈالے ہیں ۔[5] انہی بڑے معرکوں میں سے ایک اہم معرکہ جس کو ہمارے مؤرخین نے نظر انداز کر دیا ہے اور جس کے بارے میں عربی تاریخی مصادر ایک پیاسے کو سیراب کرنے سے قاصر ہیں معرکہ ’’کریون‘‘ ہے۔ یہ بابلیون سے اسکندریہ تک پھیلے ہوئے قلعوں کی آخری کڑی تھی، رومی فوج کا کمانڈر تیودرو اس قلعہ میں پناہ گزین ہوگیا، اس میں مجاہدین اسلام اور اس کی فوج کے درمیان دس دنوں سے زیادہ لڑائی ہوئی، یہ معرکہ بھی معمولی نہ تھا لیکن
[1] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص:۲۲۵۔ [2] ایضًا [3] ایضًا [4] ایضًا [5] ایضًا