کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 313
دوڑ پڑنا۔ اچانک لوگوں نے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو تلوار کے ساتھ قلعہ کے اوپر اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے دیکھا۔ آپ نے بلند آواز میں نعرۂ تکبیر پکارا اور قلعہ کے باہر تمام مسلمانوں نے بھی نعرۂ تکبیر بلند کیا۔ فضا میں گونجتے ہوئے نعرۂ تکبیر کو سننا تھا کہ رومیوں کو یقین ہوگیا کہ مسلمان قلعہ کے اندر داخل ہو چکے ہیں ، اس غلط فہمی میں وہ قلعہ چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حواری زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کو لے کر قلعہ بابلیون کے دروازے پر جا پہنچے، اس کا دروازہ کھول دیا، سب اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے اور لڑتے لڑتے قلعہ بابلیون کو فتح کر لیا، لیکن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے انہیں اس شرط پر امان دے دی کہ رومی فوج اپنے ساتھ چند دنوں کی خوراک لے کر یہاں سے نکل جائے اور قلعہ بابلیون میں جو ذخیرہ اور جنگی اسلحہ ہے انہیں ہاتھ نہ لگائیں ، کیونکہ وہ مسلمانوں کے اموال غنیمت ہیں ۔ اس کے بعد ابوعبداللہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے قلعہ بابلیون کے گنبدوں اور بلند ومستحکم دیواروں کو توڑ دیا۔[1] ۵: فتح اسکندریہ: عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھ فوجی قائدین ومجاہدین قلعہ بابلیون میں چند مہینے قیام فرما رہے تاکہ بھاری تعداد میں فوج ادھر ادھر سے آکر یہاں جمع ہو جائے اور تب تک امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے اسکندریہ کی طرف لشکر کشی کی اجازت بھی مل جائے گی۔ چنانچہ جب دارالخلافہ سے اجازت مل گئی تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کا ایک مسلح و بہادر فوجی دستہ قلعہ میں چھوڑا اور مئی ۶۴۱ء موافق جمادی الاخری ۲۱ہجری میں اپنی قیادت میں مسلمانوں کا لشکر لے کر بابلیون سے نکلے۔ آپ کے ساتھ قبطی سرداروں کی وہ جماعت بھی تھی جسے اس بات پر اطمینان حاصل تھا کہ کامیاب اسلامی فوج کی مدد کرنے ہی میں ہماری بھلائی پوشیدہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے اسلامی فوج کے لیے راستے ہموار کیے، پل بنائے، بازار قائم کیے اور رومیوں سے مسلمانوں کی محاذ آرائی کے وقت مسلمانوں کے معاون ومددگار ثابت ہوئے۔[2] عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اسکندریہ پر جنگی پیش قدمی کے لیے دریائے نیل کے (بائیں ) شمالی ساحل سے گزرنے کو ترجیح دی، تاکہ گھوڑوں اور فوج کو پیش روی کے لیے صحرا کا وسیع علاقہ مل سکے اور دریائے نیل کے ڈیلٹا سے گزرنے کی صورت میں کثیر تعداد میں جوگہری نہریں رکاوٹ کا سبب بنتی ہیں ان سے بچ سکیں - اس کارروائی میں عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو کسی قابل ذکر مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ صرف مرفوط، یا عرب مؤرخین کے مطابق ’’طرانہ‘‘ میں معمولی مزاحمت ہوئی۔[3] اس کے بعد دریائے نیل عبور کر کے اس کے مشرقی ساحل پر آگئے، جہاں
[1] الفتوحات الإسلامیۃ، د/ عبدالعزیز الشناوی، ص: ۹۱۔ [2] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص:۲۲۴۔ [3] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص:۲۲۴۔