کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 312
اس معرکہ میں بالکل اسی طرح جنگی سوجھ بوجھ سے کام لیا جس طرح خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عراق کی جنگوں میں لیا تھا۔ آپ نے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا، ایک حصہ کو جبل احمر کی کمین گاہ میں چھپا دیا اور دوسرے کے لیے ام دنین سے قریب دریائے نیل پر کمین گاہ بنائی اور اس میں چھپا دیا اور بقیہ فوج لے کر خود دشمن کے مقابلہ پر نکلے، جس وقت دونوں افواج میں لڑائی شباب پر تھی، پیچھے سے جبل احمر کی کمین گاہ میں چھپی ہوئی فوج نے رومیوں پر سخت حملہ کیا جس سے ان کا فوجی نظام درہم برہم ہوگیا اور وہ ام دنین کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے اور جب وہاں پہنچے تو اس کے قریب کمین گاہ میں چھپی ہوئی دوسری جماعت نے بھاگنے سے اس کا راستہ روک دیا، اس طرح رومی فوج مسلمانوں کی تینوں افواج کے بیچ پھنس گئی، اس کی جمعیت منتشر ہوگئی اور سب نے ہزیمت اٹھائی، صرف چند گنے چنے رومی بابلیون کے محفوظ قلعے میں بھاگ کر بچ سکے۔ چنانچہ مسلمانوں نے یہ معرکہ بڑی خوش اسلوبی سے سر کر لیا اور اللہ نے اپنے فضل و رحمت سے انہیں دشمنوں کے شر سے بچا لیا۔ یقینا مسلمانوں کے اس ماہر قائد کو اس قدر مستحکم منصوبہ سازی میں اللہ کی توفیق و تائید حاصل تھی کہ جس نے دشمن کی قوت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔[1]
۴: معرکہ قلعہ بابلیون:
ام دنین فتح کرنے کے بعد عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنی فوج کے ساتھ قلعہ بابلیون کی طرف بڑھے اور اس کا زبردست محاصرہ کیا، یہ محاصرہ مسلسل سات مہینے جاری رہا۔ اس دوران میں مقوقس اپنے سفیروں کو مصالحت کی غرض سے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجتا رہا۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مصالحت قبول کرنے کے لیے یہ شرط لگائی کہ اسلام لاؤ، جزیہ دو، یا پھر جنگ ہوگی۔ مقوقس نے جزیہ دینا منظور کر لیا اور اس سلسلہ میں ہرقل سے اجازت مانگی، لیکن ہرقل نے اسے ماننے سے انکار کر دیا اور مقوقس پر بہت غصے ہوا اسے کافی لعنت ملامت کی، اسے قسطنطنیہ طلب کیا اور پھر وہاں سے جلا وطن کر دیا اور جب قلعہ بابلیون کی فتح میں زیادہ تاخیر نظر آئی تو زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اب میں اپنی جان اللہ کے راستہ میں ہبہ کرنے جا رہا ہوں ، مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی سے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے گا۔[2]
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ قلعہ بابلیون کا محاصرہ برقرار رکھے ہوئے تھے۔ ایک رات مجاہدین اسلام نے دیواروں سے قلعہ کے اندر چھلانگ لگا دی اور اندر گھس کر رومی فوج کے ساتھ گتھم گتھا ہو گئے۔ قلعہ کے اندر سب سے پہلے چھلانگ لگانے والے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے سوق حمام کی طرف سے دیوار پر سیڑھی لگائی اور اوپر چڑھ گئے اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ جب مجھے اوپر اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے سننا تو قلعہ میں داخل ہونے کے لیے
[1] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص:۲۱۹۔
[2] الفتوحات الإسلامیۃ، د/ عبدالعزیز الشناوی، ص: ۹۱