کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 311
شادی کرنے پر راضی نہ تھی، اسی لیے وہ اپنی خادمہ ’’ربارہ‘‘ کے ساتھ سیر و تفریح کے بہانے بلبیس بھاگ آئی۔ بہرحال جب اسلامی فوج نے اسے گرفتار کیا تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے تمام صحابہ کرام کی ایک مجلس بلائی اور انہیں اللہ کا یہ فرمان سنایا: ﴿ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ ﴾ (الرحمن: ۶۰) ’’احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے۔‘‘ اور اس آیت کے حوالے سے کہا کہ مقوقس نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہدیہ بھیجا تھا، میری رائے ہے کہ اس لڑکی اور اس کے ساتھ جو دیگر خواتین اور اس کے خدمت گزار ہیں اور جو مال ہمیں ملا ہے سب کچھ مقوقس کے پاس بھیج دو۔ سب نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی رائے کو درست قرار دیا۔[1] پھر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ارمانوسہ کو اس کے تمام جواہرات، دیگر خواتین اور خدمت گذاروں کے ساتھ نہایت عزت واحترام سے اس کے باپ کے پاس بھیج دیا، واپس ہوتے ہوئے اس کی خادمہ ربارہ نے ارمانوسہ سے کہا: ہم ہر طرف سے عربوں کے گھیرے میں ہیں ۔ ارمانوسہ نے کہا: میں عربی خیمے میں جان اور عزت کو محفوظ سمجھتی ہوں ، لیکن اپنے باپ کے قلعے میں اپنی جان محفوظ نہیں سمجھتی۔[2] پھر جب وہ اپنے باپ کے پاس پہنچی تو وہ اس کے ساتھ مسلمانوں کا برتاؤ دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا۔[3] ۳: معرکہ ام دنین: ابن عبدالحکم نے اپنی روایت میں ذکر کیا ہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنی فوج لے کر آگے بڑھے اور تقریباً ایک مہینہ مسلسل لڑنے کے بعد بلبیس فتح کیا اور وہاں سے آگے بڑھے تو ’’ام دنین‘‘ آئے جس کا نام مقس تھا اور دریائے نیل پر واقع تھا۔ مسلمانوں نے اس کے اردگرد سخت لڑائی کی، سخت معرکہ آرائی کی وجہ سے عمرو رضی اللہ عنہ نے امیرالمومنین رضی اللہ عنہ سے فوجی کمک کا مطالبہ کیا اور امیرالمومنین نے چار ہزار فوج کو فوراً مدد کے لیے روانہ کر دیا۔ ہر ہزار پر ایسا مرد آہن امیر مقرر کیا جو تنہا ہزاروں کا مقام رکھتا تھا، اس چار ہزار پر جو چار لوگ امیر مقرر کیے گئے تھے وہ تھے: زبیر بن عوام، مقداد بن اسود، عبادہ بن صامت اور مسلمہ بن مخلد رضی اللہ عنہم ۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ چوتھے مسلمہ رضی اللہ عنہ کے بجائے خارجہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ تھے۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے یہ فوج بھیجنے کے ساتھ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ تمہارے ساتھ بارہ ہزار مجاہدین ہیں ، یہ تعداد کمی کی وجہ سے کبھی مغلوب نہیں ہوگی۔‘‘[4] رومی جنگجو قبطیوں کو ساتھ لے کر مسلمانوں کا مقابلہ کرنے نکلے، دونوں افواج میں گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے
[1] الدور السیاسی فی صدر الاسلام، الصفوۃ، ص: ۴۳۱۔ [2] فتح مصر، صبحی ندا، ص:۲۴۔ [3] فتح مصر، صبحی ندا، ص:۲۴۔ [4] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص:۲۱۸۔