کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 310
۲: فتح بلبیس:
سیّدناعمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنی جمعیت کے ساتھ جب بلبیس پہنچے تو رومی فوج نے کثیر تعداد میں وہاں آپ کاراستہ روکنا چاہا تاکہ بابلیون کے قلعہ تک مسلمان نہ پہنچ سکیں ، اپنے منصوبہ کے مطابق رومی فوج یہیں لڑنا چاہتی تھی، لیکن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تم اس وقت تک جلدی نہ کرو جب تک کہ ہم اپنی بات تمہارے سامنے رکھ نہ دیں تاکہ کل عذر ومعذرت کی کوئی بات نہ رہ جائے۔ تم اپنے پاس سے ابومریم اور ابومریام کو میرے پاس سفیر بنا کر بھیجو۔ چنانچہ وہ لوگ لڑنے سے رک گئے اور مطلوبہ دونوں سفیروں کو عمرو بن عاص کے پاس بھیجا آپ نے ان دونوں کو اسلام یا جزیہ دونوں میں سے کسی ایک کو ختیار کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی سنایا کہ ہاجرہ یعنی اسماعیل علیہ السلام کی ماں کا مصر سے تعلق ہونے کی وجہ سے اہل مصر کے بارے میں ہمیں ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد ہے:
(( إِنَّکُمْ سَتَفْتَحُوْنَ مِصْرَ ، وَہِیَ أَرْضٌ یُسََمّٰی فِیْہَا الْقِیْرَاطُ فَإِذَا فَتَحْتُمُوْہَا فَأَحْسِنُوْا إِلَی أَہْلِہَا فَإِنَّ لَہُمْ ذِمَّۃً وَرَحْمَۃً ۔ أَوْ قَالَ: ذِمَّۃً وَ صِہْرًا۔)) [1]
’’تم مصر فتح کرو گے، وہ ایسی سر زمین ہے کہ جہاں قیراط[2] کا رواج ہوگا جب تم اسے فتح کرو تو وہاں کے لوگوں سے حسن سلوک کرنا کیونکہ تم پر ان کا حق ہے اور رشتہ بھی۔ یا آپ نے فرمایا: اس لیے کہ ان کا حق بھی ہے اور سسرالی رشتہ بھی۔‘‘
ان دونوں نے یہ سن کر کہا: یہ بہت دور کا رشتہ ہے اسے انبیاء ہی پورا کر سکتے ہیں ، ہمیں جانے دیجیے اور ہم لوٹ کر آپ کو بتائیں گے۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھ جیسے لوگ دھوکا نہیں دیے جا سکتے، جاؤ میں تمہیں تین دن کی مہلت دیتا ہوں ، اچھی طرح معاملہ پر غور کر لو۔ دونوں نے کہا: ایک دن کی اور مہلت دے دیں ۔ آپ نے مزید ایک دن کا موقع دیا۔ دونوں لوٹ کر قبطیوں کے سردار مقوقس [3] اور شاہ روم کی طرف سے مصر کے حاکم ارطبون کے پاس آئے اور مسلمانوں کی بات ان کے سامنے رکھی، ارطبون نے ماننے سے انکار کر دیا اور جنگ کا پختہ ارادہ کر کے راتوں رات مسلمانوں کی فوج پر حملہ کر دیا۔ مسلمانوں نے اسے اس کے لشکر سمیت اسکندریہ تک شکست دی۔ اس جنگی کش مکش کے دوران میں ایک ایسا واقعہ پیش ایا جو مسلمانوں کی دانش مندی اور اخلاقی برتری کی دلیل ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ جب بلبیس پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی تو اس میں ’’مقوقس‘‘ کی لڑکی گرفتار ہوئی جس کا نام ’’ارمانوسہ‘‘ تھا، وہ اپنے باپ کی چہیتی بیٹی تھی، اس کا باپ قسطنین بن ہرقل سے اس کی شادی کرنا چاہتا تھا۔ یہ وہی قسطنین ہے جو معرکہ ذات الصواری میں رومی افواج کا قائد تھا، ارمانوسہ اس سے
[1] صحیح مسلم، فضائل الصحابۃ، حدیث نمبر ۲۲۷، ۲۵۴۳۔
[2] وزن کا ایک پیمانہ ہے جس کا معیار ہر دور میں مختلف رہا ہے۔
[3] البدایۃ والنہایۃ ۷/۱۰۰۔