کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 309
ثبوت دیا اور کچھ لوگوں نے دروازے تک رومیوں کے پہنچنے سے پہلے ہی وہاں پہنچ کر فصیل کا دروازہ کھول دیا۔ شہر میں سب سے پہلے مسلمانوں کے ایک جانباز اسمیقع داخل ہوگئے اور فتح مبین کا راستہ صاف کر دیا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مصر کے قدیم باشندے یعنی ادھر ادھر دیہاتوں میں رہنے والے قبطیوں نے مسلمانوں کا استقبال کیا۔ جب فرما پر مسلمانوں کا قبضہ مکمل ہوگیا تو انہوں نے اس کی مضبوط فصیلوں اور قلعوں کو منہدم کر دیا تاکہ اگر کبھی (بدقسمتی) سے رومی اس پر غالب ہوں تو اس سے فائدہ نہ اٹھا سکیں ۔ اس کے بعد عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر والوں میں خطبہ دیا: اے لوگو! اس اللہ کی تعریف بیان کرو جس نے مسلمانوں کے لشکر کو فتح وغلبہ سے نوازا۔ اللہ بہت بڑا کار ساز ہے، اس نے اسلام سے ہماری پشت پناہی کی اور اسی سے ہماری واپسی کا راستہ محفوظ کیا، لیکن تم کہیں اس خام خیالی میں نہ آنا کہ اللہ سے ہم جو کچھ بھی چاہیں گے وہ پورا ہی ہو جائے گا اور تم اس نصرت الٰہی سے دھوکا کھا جاؤ۔ ابھی ہمارے سامنے نہایت دشوار گزار راستہ ہے، امیرالمومنین نے ہمیں جس مہم پر مامور کیا ہے اس کا پانا ابھی بہت دور ہے۔ صبر سے کام لو، اپنے امیر کی اطاعت کرو، عنقریب مفتوحہ قوم جان لے گی کہ ہم سلامتی دینے والی فوج ہیں ، روئے زمین پر ہم فساد نہیں کرتے بلکہ فساد کو مٹاتے اور زمین کی اصلاح کرتے ہیں ۔ تم سب قدوئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتر عمل کرنے والے ہو جاؤ۔[1]
’’فرما‘‘ فتح کرنے کے بعد عمرو رضی اللہ عنہ اس حد تک مطمئن ہو چکے تھے کہ اب یہ شہر دشمن کے لیے پناہ گاہ بننے کے لائق نہیں بچا ہے، پھر اپنی فوج کے حالات اور خیریت معلوم کرنے لگے۔ ان چند مجاہدین کی شہادت پر آپ کو زیادہ ہی تکلیف ہوئی جو مصر فتح کرنے کے لیے زیادہ بے چین تھے اور وہ وقت آنے سے پہلے موت نے انہیں اپنی آغوش میں لے لیا۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو اسی وقت سے یہ خطرہ لاحق ہوگیا کہ اگر آئندہ اسی طرح لڑائیوں کا سامنا کرنا پڑا اور قلت تعداد کے باعث ہمارا اسی طرح جانی نقصان ہوا تو ممکن ہے کہ اصل جنگ کا مقابلہ نہ کیا جا سکے اور منزل تک پہنچنے میں ہم ناکام رہیں ، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی تائید غیبی سے اس نقصان کی تلافی کر دی۔ بایں طور کہ راشدہ اور لخم کے جو عربی قبیلے کوہ حلال[2] کے دامن میں زندگی گزار رہے تھے وہ اسلامی فوج سے آملے اور عمرو رضی اللہ عنہ اپنا لشکر لے کر بلا کسی مزاحمت کے مغرب کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب قواصر (قصاصین) پہنچے تو یہاں سے جنوب کی طرف مڑ گئے اور صبح ہوتے ہوتے ’’التل الکبیر‘‘ کے قریب وادی طمبلان پہنچ گئے۔ جنوب کی سمت میں مزید پیش قدمی کرتے ہوئے بلبیس پہنچے، النجوم الزاہرہ کے مؤلف کا کہنا ہے کہ عمرو رضی اللہ عنہ نہایت ہلکی ومعمولی مزاحمتوں سے گزرتے ہوئے بلبیس آئے۔[3]
[1] فتح مصر، صبحی ندا، ص:۲۰۔
[2] جولۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص:۲۱۴۔
[3] النجوم الزاہرۃ: ۱؍۷، ۸۔