کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 308
بازنطینی رومی حکومت کے سقوط کے اعتبار سے، فتح مصر سے اسلامی فتوحات کے تیسرے مرحلہ کا آغاز ہوتا ہے۔ چنانچہ فلسطین کے بعد سمندر کے برابر میں چلتے ہوئے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فلسطین سے مصر پہنچے۔ ’’رفح، عریش اور فرما سے فاتحانہ اقدام کرتے ہوئے قاہرہ اور پھر اسکندریہ تک پہنچ گئے۔ فوجی کارروائی کے لیے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا ساحلی راستہ اختیار کرنا ان کی عسکری مہارت کی دلیل ہے۔ شاید آپ نے یہ راستہ اس لیے اپنایا تھا کہ بلاد شام کی طرح اس راستے میں رومیوں کی کوئی عسکری قوت موجود نہ تھی اور یہ وجہ بھی رہی ہوگی کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے لیے یہ راستہ جانا پہچانا تھا۔ اس طرح آپ ذیل کی ترتیب کے مطابق مسلسل فاتحانہ اقدام کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے، فتوحات کے تسلسل اور تقدیم و تاخیر کے متعلق تاریخی روایات میں کچھ اختلاف ہے، جیسے کہ بلاد شام کی فتوحات میں کہیں کہیں ہمیں نظر آیا ہے، اس لیے میں اس کی توجہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ ۱: فتح فرما: عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ مغرب کی طرف چلے، ’’فرما‘‘ سے پہلے کسی بھی رومی سپاہی سے ملاقات نہ ہوئی، بلکہ جگہ جگہ مصریوں نے ان کا استقبال کیا۔ سب سے پہلے ’’فرما‘‘ میں محاذ آرائی ہوئی۔ رومیوں نے یہ خبر پا کر کہ عمرو رضی اللہ عنہ کے ساتھ آنے والے فوجی معمولی تعداد اور ناقابل ذکر جنگی تیاری میں ہیں ، زیادہ دنوں تک محاصرہ نہیں کر سکتے، جب کہ ہم ان سے زیادہ تعداد و تیاری میں ہیں اور انہیں پست کر لے جائیں گے، وہ شہر میں قلعہ بند ہوگئے۔ ادھر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو رومیوں کی عسکری قوت کا علم ہو چکا تھا کہ وہ تعداد واسلحہ میں کئی گنا ہم پر بھاری ہیں ، چنانچہ آپ نے ’’فرما‘‘ پر قابض ہونے کے لیے یہ منصوبہ بنایا کہ اچانک حملہ کر کے فصیل کے دروازوں کو کھول دیا جائے یا پھر اس وقت تک صبر کے ساتھ محاصرہ جاری رکھا جائے جب تک کہ شہریوں کی خوراک ختم نہ ہو جائے اور بھوک سے بے تاب ہو کر باہر نہ نکل آئیں ۔ چنانچہ محاصرہ کر لیا، ادھر مسلمانوں کا محاصرہ سخت سے سخت تر ہوتا جا رہا تھا اور ادھر رومی بھی اپنی ضد سے پیچھے نہ ہٹ رہے تھے۔ اس طرح محاصرہ کئی مہینے جاری رہا، کبھی کبھی بعض رومی فوج باہر آتی اور دو چار جھڑپیں کر کے پیچھے ہٹ جاتی، ان جھڑپوں میں مسلمان ہی غالب رہتے۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنی جوش آفریں تقریر سے مسلمانوں کو ہمت دلاتے، ایک تقریر میں آپ نے کہا: اے اسلام وایمان کے پاسبانو! اے قرآن کو سینے میں سجانے والو! اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ! فولادی مردوں کی طرح صبر کرو، ثابت قدم رہو، اپنی صفوں سے نہ ہٹو، تیر برساتے رہو، زرہوں سے خود کو بچاتے رہو، خاموش رہو، ہاں بولو تو اللہ کا ذکر کرو، اپنی مرضی سے کوئی نیا اقدام نہ کرو، جب تک کہ میں تم کو حکم نہ دے دوں ۔[1] ایک دن رومی افواج کی ایک جماعت بستی سے باہر نکل کر مسلمانوں سے لڑنے نکلی، مقابلہ میں مسلمان غالب رہے اور رومی ہزیمت کھا کر بستی کی طرف بھاگے، مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا، دوڑنے میں کافی تیز روی کا
[1] فتح مصر، صبحی ندا، ص:۱۹،۲۰۔