کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 307
موقع سے فائدہ اٹھاتے، خاص طور سے اس لیے کہ مسلمانوں کے عدل و انصاف کا چرچا وہ پہلے ہی سن چکے تھے۔[1] اور مصر کے ان محافظ دستوں کو مسلمانوں اور اسلامی فوج سے مرعوب ہونا ضروری بھی تھا۔[2] کیونکہ وہ دیکھ چکے تھے کہ ہمارا بادشاہ ہرقل شام کو اسلامی سلطنت کے حوالے کر کے چھوڑ بھاگا ہے… عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ان تمام تبدیلیوں کا نہایت باریکی سے مطالعہ کر رہے تھے اور اس نتیجہ پر پہنچ چکے تھے کہ رومی افواج اب مصر میں مسلمانوں کے سامنے ٹھہرنے کی طاقت کھو چکی ہیں اور اگر اس حالت میں بھی مصر کو فتح نہیں کیا جاتا تو یہ ہمیشہ مسلمانوں کے لیے خطرے کا مرکز بنا رہتا، اس بات کا اظہار عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اپنی زبان سے کیا۔[3]
مصر فتح کرنے کا خیال سب سے پہلے کس کے دل میں پیدا ہوا، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے دل میں ، یا ان کے مشورہ کے بغیر خلیفہ راشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس طرف توجہ دی یا یہ کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے اصرار کے بعد خلیفہ نے اس پر موافقت کی؟[4] اس سلسلہ میں روایات میں اختلاف ہے، لیکن اس اختلاف کے باوجود فتح مصر کے جو عوامل واسباب بتائے گئے ہیں وہ اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ خلیفۂ وقت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس پر راضی تھے اور یہ صرف عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا خیال تھا، یا یہ کہ مصر کی سر زمین، آب وہوا اور وہاں دشمن کی کثرت تعداد کا انہیں پورا علم نہیں تھا۔ تاریخی روایات میری رائے کی تائید کرتی ہیں ۔ ابن عبدالحکم صراحتاً تحریر کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے شام فتح ہو جانے کے بعد عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھا کہ ’’لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر مصر پر چڑھائی کے لیے تیار کرو، جو تمہارے ساتھ جانے کو تیار ہوں انہیں ساتھ لے کر جاؤ۔‘‘[5] طبری لکھتے ہیں کہ ’’ایلیا (بیت المقدس) والوں سے مصالحت کرنے کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے وہاں کئی دنوں تک قیام کیا اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو اس ہدایت کے ساتھ مصر بھیجا کہ اگر اللہ نے اس پر فتح دی تو تم وہاں کے امیر ہوگے۔ ان کے پیچھے ہی زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں ایک امدادی فوج روانہ کی۔ اس بات کی تائید ان امدادی افواج کی روانگی سے بھی ہوتی ہے جنہیں عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مختلف جہات سے مصر بھیجا تھا اور ان کی تعداد بارہ ہزار (۱۲۰۰۰) پہنچ گئی تھی۔ نیز بلا اختلاف تمام مؤرخین اس بات کے قائل ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسکندریہ کی فتح کے لیے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا۔[6]
[1] دراسات فی عہد النبوۃ والخلافۃ الراشدۃ، ص:۳۵۷۔
[2] فتوح الشام، أزدی، ص:۱۱۸۔
[3] دراسات فی عہد النبوۃ والخلافۃ الراشدۃ، ص:۳۵۷۔
[4] النجوم الزاہرۃ ۱/۴۔۷۔
[5] فتوح مصر، ص: ۵۷۔
[6] تاریخ الطبری: ۵/ ۸۴ تا ۹۳۔