کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 306
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اس کے پاس جوابی خط میں تحریر کیا کہ ’’میں فاتح بیت المقدس ہوں ‘‘ اور خط اپنے قاصد کے ذریعہ سے بھیجتے ہوئے قاصد کو نصیحت کی کہ ارطبون سے اس خط کا جواب لے کر لوٹے۔ جب ارطبون نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا خط پڑھا تو ہنسنے لگا اور کہا: ’’بیت المقدس کے فاتح کا نام عمر ہے‘‘ قاصد نے ارطبون کی بات عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو بتائی، تو عمرو رضی اللہ عنہ نے فوراً اندازہ لگا لیا کہ ارطبون امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔[1] عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے خلیفہ راشد کے نام خط لکھا اور ارطبون کی بات نقل کرتے ہوئے کہا کہ اس کے نزدیک امیرالمومنین عمر ہی بیت المقدس فتح کر سکتے ہیں ۔ نیز عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ خط میں آپ سے مدد کا مطالبہ کیا اور آئندہ کی کارروائی سے متعلق رائے اور مشورہ لیتے ہوئے لکھا: ’’میں سخت ترین اور سنگین جنگ میں لگا ہوا ہوں ، ایسے شہر میں ہوں جو آپ کے سامنے سپر انداز ہونے کو تیار ہے، آگے آپ کی مرضی۔‘‘[2] چنانچہ صلاح ومشورہ کے بعد ایک امدادی فوج لے کر عمر رضی اللہ عنہ شام کی طرف نکل پڑے۔ سیّدناعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا قائم مقام بنایا اور خود جابیہ پہنچ گئے۔ آپ کے پہنچنے کے بعد ایلیا (بیت المقدس) والے خود سامنے آئے اور جزیہ کی ادائیگی پر مصالحت کی اور بیت المقدس کے دروازے ان کے لیے کھول دیے۔[3] (۲)… فتوحات مصر ولیبیا مسلمانوں کی نگاہ میں مصر فتح کرنے کے چند قوی اسباب تھے، سب سے اہم سبب تو یہ تھا کہ وہ اسلامی عقیدے کو روئے زمین کے چپے چپے میں غالب وعام کرنا چاہتے تھے، اور چونکہ مصر کی سرحدیں فلسطین سے ملتی تھیں ، اس لیے فتح فلسطین کے بعد ان کا مصر کی طرف متوجہ ہونا ایک فطری امر تھا۔ مسلمانوں نے شام فتح کر کے روم کی بازنطینی بادشاہت کو دو حصوں میں اس طرح تقسیم کر دیا تھا کہ دونوں کے درمیان اتصال سمندر کے ذریعہ سے ہو سکتا تھا۔ مصر اور شمالی افریقہ میں روم کی مسلح افواج موجود رہتی تھیں ، دریائے نیل میں رومیوں کا مضبوط بحری بیڑا پہلے ہی موجود تھا، اس لیے مسلمان شام میں اس وقت تک خود کو مامون نہیں سمجھ سکتے تھے، جب تک مصر رومی قبضہ میں باقی تھا، مصر ایک مالدار ملک تھا، قسطنطنیہ میں سامان رسد یہیں سے بھیجا جاتا تھا، چنانچہ جب مسلمانوں نے مصر فتح کر لیا تو رومیوں کا اثر و نفود بالکل جاتا رہا اور مسلمانوں کو شام وحجاز میں اس اعتبار سے اطمینان وامن حاصل ہوگیا کہ مصر کے راستے سے روم کا حجاز پہنچنا آسان نہ رہا۔[4] فتح مصر کا دوسرا سبب یہ بھی بنا کہ مصر کے قدیم باشندے ’’قبطی‘‘ رومیوں کے ظلم و جبر کا شکار تھے۔ فوجی محافظوں اور سرحدی چوکیداروں سے زیادہ ان کی زندگی کی کوئی وقعت نہ تھی پس ایسی صورت میں یقینی تھا کہ وہ
[1] تاریخ الطبری ۴/۴۳۳۔ [2] تاریخ الطبری: ۴/۴۳۳۔ [3] تاریخ الطبری: ۴/۴۳۳۔ [4] عصر الخلافۃ الراشدۃ/ أکرم العمری ص:۳۴۸۔