کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 303
بھروساہے، تجھ سے امیدیں وابستہ ہیں ، تو ہی ہمارا مددگار ہے، تجھ سے اچھا کوئی محافظ اور معاون نہیں ۔‘‘ چنانچہ معاویہ رضی اللہ عنہ وہاں سے قیساریہ چل پڑے اور وہاں پہنچ کر شہر کا محاصرہ کیا، کئی مرتبہ وہاں کے باشندوں سے جھڑپیں ہوئیں اور ایک وقت آیا کہ دونوں میں شدید جنگ چھڑ گئی۔ معاویہ رضی اللہ عنہ پامردی سے جمے رہے اور جنگ کو کامیاب بنایا۔ اللہ نے ان کے ہاتھوں کو مضبوط کیا اور فتح سے نوازا، دشمن کے تقریباً اسی ہزار (۸۰۰۰۰) لوگ جنگ میں قتل کیے گئے اور بیس ہزار (۲۰۰۰۰) ہزیمت خوردہ و مفرور فوج کو ملا کر ایک لاکھ تعداد پوری کر دی۔ پھر مال غنیمت کا خمس اور فتح کی بشارت دے کر اپنے قاصد کو امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔[1] ۶۔ بیت المقدس کی فتح ۱۶ ہجری: جس وقت مسلمانوں نے فتح کے ارادے سے بیت المقدس کا رخ کیا اس وقت فلسطینی حکومت کی کمان ارطبون رومی کے ہاتھ میں تھی، وہ مقام و مرتبہ میں بادشاہ روم کے ہم پلہ ہوا کرتا تھا، یہ شخص دور اندیش، جنگی سوجھ بوجھ رکھنے والا اور اپنے فیصلہ پر ٹھوس اقدام کرنے والا تھا۔ اس نے جنگی حکمت عملی کے تحت ’’رملہ‘‘ اور ’’ایلیا‘‘ (بیت المقدس) میں بڑی بڑی افواج اتار دی تھیں ۔[2] عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے خط لکھ کر امیرالمومنین کو صورت حال سے آگاہ کیا اور مستقبل کی کارروائی کے لیے مشورہ کرتے ہوئے اجازت مانگی۔ اس موقع پر عمر رضی اللہ عنہ نے جو بات کہی وہ آج بھی شہرت کی حامل ہے۔ آپ نے کہا تھا: ’’ہم نے روم کے ارطبون کو عرب کے ارطبون سے ٹکرا دیا ہے، دیکھو اب کیا ظہور ہوتا ہے۔‘‘ [3] وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ دونوں ہی اپنی اپنی قوم کے زیرک وزبردست جرنیل ہیں ۔ ۱۵ ہجری میں اجنادین پر مسلمانوں کی دوبارہ لشکر کشی اور رومیوں پر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے غلبہ نے فلسطین کا راستہ ہموار کر دیا تھا3 اور اب معرکہ بیت المقدس کا عملی نفاذ ہونے جا رہا تھا۔ رومی قائد ارطبون نے اپنے لشکر جرار کو کئی حصوں میں تقسیم کر کے رملہ اور ایلیا (بیت المقدس) میں پھیلا دیا تھا۔ دونوں شہروں کا درمیانی فاصلہ اٹھارہ (۱۸) میل ہے۔ ارطبون کا مقصد یہ تھا کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ان دونوں عظیم شہروں پر مسلمانوں کی طرف سے کوئی فوجی کارروائی نہ ہو سکے۔ اور یقینا دونوں شہر اہمیت کے حامل تھے۔ ’’رملہ‘‘ فلسطین کا بڑا قصبہ اور ’’ایلیا‘‘ (بیت المقدس) اس کا سب سے بڑا شہر تھا۔ [4] رومی بادشاہ کی طرف سے ’’ارطبون‘‘ کو ’’ایلیا‘‘ کا حاکم مقرر کیا گیا تھا، یاد رہے کہ یہ وہی ارطبون ہے جو اجنادین میں شکست کھانے کے بعد اپنے لاؤ لشکر سمیت یہاں بھاگ آیا تھا اور اس وقت رملہ کا حاکم تذارق تھا۔[5] اور اب آئندہ صفحات میں ان مراحل کا ذکر ہوگا جن
[1] حروب القدس فی التاریخ الإسلامی والعربی، د/ یاسین وسوید، ص:۳۵۔ [2] تاریخ الطبری: ۴/۴۳۱۔ [3] حروب القدس فی التاریخ الإسلامی والعربی، ص: ۳۵۔ [4] حروب القدس فی التاریخ الإسلامی والعربی، ص: ۳۵، ۳۶۔ [5] تاریخ الطبری: ۴/ ۴۳۲۔