کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 299
ہم اللہ واحد کی تعریف کرتے ہیں جس کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں ۔ امابعد! ہم دیکھ رہے ہیں کہ (خلافت سے قبل) اصلاح نفس کی آپ کو فکر رہا کرتی تھی۔ اے عمر! اب آپ سیاہ و سفید پوری امت محمدیہ کے معاملوں کے ذمہ دار ہوگئے ہو۔ آپ کے پاس دوست ودشمن، بڑے چھوٹے، طاقتور اور کمزور سبھی آتے ہیں اور سب کا آپ پر حق ہے اور ان کا حق یہ ہے کہ آپ سے ان کو انصاف ملے، لہٰذا آپ دیکھیں ان کے لیے کیسا ثابت ہوتے ہیں ؟ اے عمر! ہم آپ کو وہ دن یاد دلاتے ہیں جس دن سارے بھید کھل جائیں گے، پردے فاش ہو جائیں گے، دل میں چھپی باتیں ظاہر ہوں گی، سارے چہرے اللہ قاہر کے سامنے جھکے ہوں گے، اپنی عظمت وجلال سے وہ سب پر غالب ہوگا، سارے انسان اس کے پاس عاجزی کے ساتھ کھڑے ہوں گے اس کے فیصلے کے منتظر ہوں گے، اس کی سزا سے لرزاں ہوں گے اور اس کی رحمت کی امید لگائے ہوں گے۔ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ اس امت میں ایسے لوگ ہوں گے جو بظاہر دوست اور اندر سے دشمن ہوں گے، ہم اس برائی سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ۔ آپ ہماری اس تحریر کا غلط مفہوم نہ سمجھیں ۔ والسلام علیک ورحمۃ اللہ۔‘‘[1] صدیقی دور خلافت کے بعد عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شام کے محاذ پر جو کچھ فوجی کارروائیاں ہوئیں وہیں سے بلاد شام کی فتوحات کے دوسرے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ چنانچہ جب معرکہ یرموک اختتام کو پہنچا اور رومی فوجیوں کی ہزیمت ہوئی تو ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے بشیر بن کعب حمیری رضی اللہ عنہ کو یرموک میں اپنا قائم مقام چھوڑا اور یہ خبر ملنے کے بعد کہ یرموک کی شکست خوردہ رومی فوج ’’فحل‘‘ میں جنگ کے لیے اکٹھا ہو رہی ہے اور اہل دمشق کو حمص سے مدد ملنے والی ہے، تو آپ تردد میں پڑ گئے کہ دمشق سے اپنی فوجی کارروائی کا آغاز کریں یا اردن کے شہر ’’فحل‘‘ سے۔ آپ نے امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ سے اس سلسلہ میں رہنمائی طلب کی، عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں یہ خط بھیجا: ’’پہلے دمشق پر حملہ کر کے اسے فتح کرو کہ وہ شام کا قلعہ اور اس کا صدر مقام ہے۔ ساتھ ہی فحل میں بھی سوار دستے بھیج دو، جو انہیں تمہاری طرف نہ بڑھنے دیں ، اسی طرح فلسطین وحمص پر بھی نگاہ رکھو اگر دمشق سے پہلے فحل فتح ہو جائے تو بہتر ہے ورنہ دمشق فتح کر لینے کے بعد تھوڑی سی فوج وہاں چھوڑ دینا اور تمام امرائے لشکر کو اپنے ساتھ لے کر فحل روانہ ہو جانا اور اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں فحل فتح کرا دے تو خالد اور تم حمص چلے جانا۔ ہر علاقہ کا سالار فوج (وہاں سے گزرنے والی) دوسری فوج کا سالار اعلیٰ مانا جائے گا۔ جب تک کہ وہ اس کا علاقہ خالی نہ کر دیں۔‘‘[2]
[1] فتوح الشام، ص: ۹۹۔ ۱۰۲، التاریخ الإسلامی: ۹/۲۷۴۔ [2] تہذیب وترتیب البدایۃ والنہایۃ، ص: ۵۲، الدعوۃ الإسلامیۃ فی عہد أمیر المؤمنین عمر بن خطاب، ص:۲۷۶۔