کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 297
پھر مجھے اپنے یہاں ٹھہرنے دو۔ اس نے کہا ٹھیک ہے۔ بکیر وہاں ٹھہر کر آذربائیجان کا ایک ایک شہر فتح کرتے رہے اور عتبہ دوسری سمت سے آذربائیجان کے ایک ایک شہر اور بستی کو فتح کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ اسی دوران میں عمر رضی اللہ عنہ کا خط موصول ہوا کہ بکیر، عتبہ بن فرقد کو لے کر ’’باب‘‘ کی طرف پیش قدمی کریں اور سماک کو عتبہ کا نائب بنا دیں ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے آذربائیجان کے تمام شہروں و بستیوں کی فوج کو عتبہ بن فرقد کے تابع کر دیا اور بکیر نے اسفندیاذ کو آذربائیجان میں چھوڑا، پیش قدمی کے دوران عتبہ بن فرقد کی فوج بہرام بن فرخزاد کی فوج سے ٹکرا گئی۔ عتبہ نے اسے شکست دی اور بہرام وہاں سے بھاگ نکلا،جب اسفندیاذ کو اس ہزیمت کی خبر ملی تو اس نے کہا: صلح اب مکمل ہوئی اور جنگ کی آگ بجھ گئی۔ پھر وہاں کے باشندوں نے عتبہ سے صلح کی درخواست کی، جسے آپ نے منظور کر لیا اور اسلامی فوج بسلامت آذربائیجان میں واپس لوٹی۔ عتبہ اور بکیر دونوں نے فتح کی خبر کے ساتھ مال غنیمت کا خمس بھی عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور جب آذربائیجان کی امارت عتبہ کو سونپی گئی تو آپ نے اس کے باشندوں کے لیے امان وصلح نامہ تحریر فرمایا۔[1] (مزید تفصیل ملاحظہ ہو، سیرت عمر بن خطاب، ص: ۶۹۸)
[1] تاریخ الطبری: ۵/۱۴۱، ۱۴۲۔