کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 296
ہوا۔ وہاں کے باشندوں نے آخر مسلمانوں سے صلح کر لی اور عبداللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے انہیں مصالحت کے بعد امان دے دی۔ ان میں سے تیس ہزار (۳۰۰۰۰) ایرانی ’’کرمان‘‘ بھاگ گئے اور صلح کے لیے راضی نہ ہوئے۔ ۲۱ہجری میں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ’’قم‘‘ اور ’’قاشان‘‘ کو اور سہیل بن عدی رضی اللہ عنہ نے شہر ’’کرمان‘‘ کو فتح کیا۔ ۱۔ ہمدان پر دوسری فتح ۲۲ھ میں : یہ بات گزر چکی ہے کہ جب مسلمان فتح نہاوند سے فارغ ہوئے تھے تو حلوان اور ہمدان کو فتح کر لیا تھا، لیکن کچھ ہی دنوں بعد ہمدان والوں کی قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ سے جو مصالحت ہوئی تھی اسے انہوں نے توڑ دیا، نعیم بن مقرن رضی اللہ عنہ نے ہمدان والوں پر چڑھائی کرنے کے لیے عمر رضی اللہ عنہ سے اجازت مانگی، آپ نے انہیں اجازت دے دی۔ نعیم رضی اللہ عنہ نے ’’ثنیۃ العسل‘‘ میں پڑاؤ ڈالا، پھر نشیبی علاقہ سے ہوتے ہوئے ہمدان والوں پر چڑھائی کی اور ان کو گھیرے میں لے کر محاصرہ کر لیا۔ ہمدان والوں نے دوبارہ مصالحت کی پیش کش کی اور امان مانگی۔ آپ نے مصالحت منظور کر لی اور شہر میں فاتحانہ شان سے داخل ہوئے۔ ۲۔ فتح رَے ۲۲ھ: نعیم بن مقرن رضی اللہ عنہ نے ہمدان پر یزید بن قیس ہمدانی کو اپنا نائب بنایا اور خود لشکر لے کر رَے[1] جا پہنچے۔ وہاں مشرکین کی ایک بھاری فوج سے مڈبھیڑ ہوئی اور رے کے دامن کوہ میں جنگ لڑی گئی۔ مسلمانوں نے صبر وہمت کا ثبوت دیا۔ بالآخر مشرکوں کی فوج شکست سے دوچار ہوئی۔ نعیم بن مقرن رضی اللہ عنہ خاص طور پر بڑی بے جگری سے لڑے اور بہت زیادہ لوگوں کو تہ تیغ کیا۔ فتح میں اتنا مال غنیمت ہاتھ آیاجتنا کہ انہوں نے مدائن میں حاصل کیا تھا۔ ابو الفرخان، جو زینبی کے لقب سے مشہور تھا، اس نے صلح کی درخواست کی اور اسے امان دے دی گئی۔ اس کے بعد نعیم رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کے پاس مال غنیمت کا خمس بھیجا اور فتح کی بشارت دی۔[2] ۳۔ فتح آذربائیجان ۲۲ھ: سیّدنا نعیم بن مقرن رضی اللہ عنہ نے جب ہمدان کو دوبارہ فتح کیا اور پھر رے کو فتح کر لیا تو بکیر بن عبداللہ کو ہمدان سے آذربائیجان[3] پر فوج کشی کرنے کا حکم دیا اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرف سے اجازت مل جانے کے بعد ان کے پیچھے ہی سماک بن خرشہ کو روانہ کیا، ساتھ ہی ابودجانہ رضی اللہ عنہ کو بھی مسلح کیا۔ سماک اپنی فوجی کمک لے کر ابھی بکیر تک نہ پہنچے تھے کہ اسفندیاذ بن فرخزاد کی جمعیت نے بکیر اور ان کی فوج سے جنگ چھیڑ دی۔ لیکن الحمد للہ مشرکین کو شکست ہوئی اور اسفندیاذ کو بکیر نے گرفتار کر لیا۔ پھر پوچھا تم صلح چاہتے ہو یا جنگ؟ اس نے کہا: صلح۔ بکیر نے کہا:
[1] قزوین سے ۲۷ فرسخ کی دوری پر ایک مشہور شہر ہے۔ [2] تاریخ الطبری: ۵/ ۱۳۶، ۱۳۷۔ [3] آذربائیجان ایک وسیع رقبہ اور پہاڑیوں والی ریاست ہے۔ بلاد دیلم سے اس کی سرحدیں ملتی ہیں ۔