کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 294
نعمان ابن مقرن رضی اللہ عنہ نے اسلامی فوج کی سرکردہ شخصیتوں کو صورت حال پر غور وخوض کے لیے دعوت دی۔ طلیحہ بن خویلد اسدی کی تجویز کے مطابق سب لوگوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ شہسواروں کا ایک دستہ آگے بڑھ کر ایرانیوں سے جنگ چھیڑے اور ایسا ماحول پیدا کر دے کہ ایرانی جنگ کرنے کے لیے شہر پناہ سے باہر نکل آئیں اور جب وہ باہر نکل آئیں تو ان کی پیش قدمی کے سامنے شہسواروں کا دستہ پیچھے ہٹتا جائے۔ دشمن اسے مسلمانوں کی کمزوری اور اپنی فتح پر محمول کریں گے، انہیں یہ امید ہوگی کہ اپنے سامنے پیچھے ہٹتے ہوئے شہسواروں کو جلد ہی پکڑ لیں گے۔ حالانکہ اپنی شکست خوردگی کا مظاہرہ کرنے والا یہ دستہ درحقیقت ایرانیوں کو ڈھیل دے رہا ہوگا تاکہ وہ میدان جنگ اور اپنی شہر پناہ سے جتنا دور باہر نکل سکتے ہیں نکل جائیں ۔ پھر اچانک بنکروں میں چھپے ہوئے مجاہدین پیچھے سے ان پر زبردست حملہ کر کے انہیں خوب لتاڑیں گے اور دشمن اپنے متعینہ میدان جنگ، حفاظتی خندق اور شہر پناہ سے کافی دور پڑا ہوگا۔[1]
پہلا دستہ:
سیّدنا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کی قیادت میں شہسواروں کا دستہ تھا، اس کی ذمہ داری تھی کہ شہر پناہ کے اندر گھس کر جنگ چھیڑنے کا آغاز کرے اور مذکورہ منصوبہ بندی پر عمل کرتے ہوئے دشمنوں کو بھٹکانے اور بہکانے کا کام کرے۔
دوسرا دستہ:
سیّدنا نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کی قیادت میں بنکروں میں چھپ کر دشمن کے باہر نکلنے کا انتظار اور آگے نکل جانے کے بعد اچانک اس پر حملہ کرنے والوں کا پیادہ دستہ تھا۔
تیسرا دستہ:
ان شہسواروں کا تھا جو میدان کارزار میں جان فروشی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں ، ان کی ذمہ داری یہ تھی کہ بنکروں میں چھپے ہوئے مجاہدین کا پہلا دستہ جب حملہ آور ہو اور دشمن کو جنگ میں مشغول کر دے تب یہ لوگ اپنے اپنے بنکروں سے باہر آئیں اور جب تک نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کی اجازت نہ ملے خود بخود بنکروں سے باہر نہ نکلیں ۔[2]
چنانچہ ہر دستے نے اپنے فرائض کو سنبھالا، قعقاع رضی اللہ عنہ نے منصوبہ بندی کے پہلے مرحلے کا آغاز کیا اور انہیں اپنے مقصد میں بہتر ین کامیابی ملی۔ جب باہر نکل کر قعقاع رضی اللہ عنہ کے دستے کو دوڑاتی ہوئی ایرانی فوج نے خود کو پیچھے سے گھرا ہوا دیکھا اور دیکھا کہ مسلم فوج کی تلواریں مشرکین کی گردنوں کو گھاس کی طرح کاٹ رہی ہیں تو ان کے ہوش گم ہوگئے اور بھاگ بھاگ کر جائے پناہ تلاش کرنے لگے، انہیں کچھ نظر نہ آتا تھا، وہ اپنے ہی ہاتھوں
[1] تاریخ الطبری: ۵/ ۱۱۳۔
[2] تاریخ الطبری: ۵؍۱۱۴