کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 293
نعمان رضی اللہ عنہ کی اس درخواست کو سامنے رکھتے ہوئے مجلس شوریٰ کی دوسری قرارداد یہ پاس ہوئی کہ نہاوند میں اسلامی فوج کا سپہ سالار نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کو بنایا جائے اس کے بعد خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس منصوبہ سازی کے ساتھ اسلامی فوج کو تیار کیا:
٭ پورے اسلامی لشکر کے سپہ سالار: کسکر کے سابق گورنر نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ
٭ کوفہ سے جانے والی فوج کے جرنیل: حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ
٭ بصرہ سے روانہ ہونے والی فوج کے جرنیل: وہاں کے گورنر ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ
٭ مہاجرین اور انصار کی فوج کے جرنیل: عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما
سلمیٰ بن القین، حرملہ بن مریطہ، زر بن کلیب، اسود بن ربیعہ رضی اللہ عنہم وغیرہ دیگر قائدین اسلام ’’اہواز‘‘ میں اور بلاد فارس میں جو لوگ ادھر ادھر ہیں وہ اپنی جگہوں پر تیار رہیں گے اور دشمنوں پر نگاہ رکھیں گے کہ عراقی ذمیوں اور ایرانی دشمنوں کے درمیان باہمی رابطہ نہ ہو سکے اور دشمن ذمیوں کو جنگ پر نہ ابھار سکے۔
امیرالمومنین رضی اللہ عنہ نے اس منصوبہ بندی کے ساتھ تمام ریاستوں کے گورنروں اور قائدین کو اپنی ہدایات لکھ بھیجیں اور تیس ہزار مسلم مجاہدین کو جنگ کے لیے اکٹھا کر لیا۔[1] اس طرح یہ اسلامی لشکر نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کی سپہ سالاری میں نہاوند کی طرف روانہ ہوگیا۔ وہاں پہنچنے پر فوج کو اندازہ ہوا کہ نہاوند کافی محفوظ ہے اور پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے اس کے چاروں طرف خندق کھودی گئی ہے اور خندق کے سامنے چوکور خاردار تاروں کی باڑ لگا دی گئی ہے۔ چوکور کانٹوں کی ایک نوک زمین میں اور تین اوپر ہیں اور کہیں زمین پر دو اوپر ہیں اور دو نیچے۔ اس باڑ کا مقصد یہ تھا کہ حملہ آوروں کی پیش قدمی کو روکا جا سکے یا کم از کم یہ کانٹے حملے آوروں کے گھوڑوں کے پاؤں میں دھنس جائیں اور ان کے کھروں میں سوراخ ہو جائیں ، پھر وہ چلنے کے قابل نہ رہیں گے اور ایرانیوں کی فوج شہر پناہ کے اندر مکمل تیاری سے ہوگی۔ ادھر مسلمانوں کی فوج میں آج وہ لوگ بھی نظر آرہے تھے جنہیں معرکہ قادسیہ میں شرکت کا موقع نہ ملا تھا۔ ایرانی لشکر کے سپہ سالار فیرزان نے مقابلہ کی تدبیر اختیار کرتے ہوئے ان تمام راستوں پر ماہر تیر اندازوں کو مقرر کر دیا تھا جدھر سے مسلم فوج کی در اندازی کا اندیشہ تھا تاکہ انہیں آگے بڑھنے کا موقع نہ مل سکے اور تیر انداز انہیں مشغول رکھیں ۔[2]
مسلم شہسوار اپنے گھوڑوں کے ساتھ آگے بڑھے، گھوڑوں کو دشمن کی خار دار باڑ اور خندق کا سامنا کرنا پڑا اور اگر کوئی شہسوار شہر پناہ کے قریب پہنچ بھی جاتا تو تیر انداز اس پر تیروں کی بوچھاڑ کر دیتے۔ بالآخر مسلم فوج کے اگلے دستے کو مایوسی ہوئی اور شہر پناہ کے اندر جانے سے عاجز رہے۔ کئی دنوں تک یہی حالت برقرار رہی تو
[1] الفن العسکری الإسلامی، ص: ۲۸۶۔
[2] الفن العسکری الإسلامی، ص: ۲۸۸