کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 289
گھوڑوں کو آگے بڑھانے کے لیے خندق کو پاٹ ڈالیں ، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اپنی طرف کی خندق پاٹ دی اور اپنے ہاتھوں سے بچاؤ کا جو قلعہ تیار کیا تھا اسے خود ہی مسمار کر دیا۔[1] جب مسلمانوں کو خبر ملی کہ دشمنوں نے خندق پاٹ دی ہے تو آپس میں طے کیا کہ ہم کیوں نہ دوبارہ زبردست حملہ کریں ، انہیں موت کے گھاٹ اتار دیں یا خود شہید ہو جائیں ـ؟ اس طرح مسلمان دوسرے مرحلے میں ان سے جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، لیکن جب خندق کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ وہاں لوہے کی خاردار باڑ باندھی ہوئی ہے تاکہ مسلم شہ سوار آگے نہ بڑھ سکیں اور جن راستوں سے مسلمانوں پر حملہ کرنا ہے صرف انہی جگہوں کو خالی رکھا گیا ہے۔ بہرحال مسلمان اندر گھسے اور بڑا خون ریز معرکہ ہوا۔ اس کی نوعیت قادسیہ کے ’’لیلۃ الہریر‘‘ جیسی تھی، بس فرق اتنا تھا کہ یہاں کی کارروائی مختصر تھی اور جلد ہی اختتام کو پہنچ گئی۔ قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ جس سمت سے حملہ آور ہوئے تھے اسی طرف سے اندر گھس گئے اور خندق کے صدر دروازہ تک پہنچ کر اپنے ایک مجاہد ساتھی سے کہا کہ بلند آواز سے کہو: اے مسلمانو! ادھر دھیان دو، تمہارا امیر دشمن کی خندق کے صدر دروازہ تک پہنچ چکا ہے۔ اس کی طرف بڑھو، تمہیں آگے بڑھنے سے کوئی روک نہ پائے۔ قعقاع رضی اللہ عنہ نے یہ تدبیر اس لیے اختیار کی تھی تاکہ مسلمانوں کے دل چھوٹے نہ ہوں ، بلکہ انہیں عزم و حوصلہ کی طاقت ملے۔ بہرحال مسلمانوں نے نہایت جواں مردی کے ساتھ حملہ کیا اور انہیں قطعاً یہ شک نہ ہوا کہ ہاشم وہاں نہیں ہو سکتے۔ اس طرح جنگ کو گرماتے اور تیر و تفنگ کو چلاتے ہوئے وہ خندق کے صدر دروازے تک پہنچ گئے۔ وہاں دیکھا کہ ہاشم رضی اللہ عنہ نہیں قعقاع رضی اللہ عنہ ہیں اور دروازہ پر ڈٹے ہیں اور دشمن دائیں بائیں بھاگ رہے ہیں اور جو خار دار باڑ مسلمانوں کے لیے لگائی تھی وہی ان کے لیے مصیبت بن گئی، ان کے گھوڑے اس سے مرنے لگے پھر دشمن پیدل بھاگ کھڑے ہوئے، مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا اور دوڑا دوڑا کر سب کو قتل کر دیا، صرف چند ایک بچ سکے۔ اس دن اللہ کی مدد سے تقریباً ایک لاکھ فارسی مارے گئے، آگے پیچھے، دائیں بائیں غرضیکہ پورے میدان پر جیسے مقتولین کی لاشوں کی چادر بچھا دی گئی ہو اور اسی وجہ سے اسے جلولاء[2] کہا جاتا ہے۔ یہ ہے معرکہ جلولاء کی روداد۔[3] ۹۔ فتح رامہرمز: جلولاء میں ہزیمت اٹھانے کے بعد اہل فارس اپنے فرماں روا یزدگرد کے ابھارنے کی وجہ سے دوبارہ آمادہ قتال ہوئے اور ہرمزان کی قیادت میں رامہرمز میں سب اکٹھا ہوئے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ان کے اس اجتماع کی خبر امیرالمومنین کو دے چکے تھے، اس لیے آپ کو دربار خلافت سے حکم ہوا کہ نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کی قیادت میں کوفہ کی ایک فوج دشمن سے مقابلہ کے لیے روانہ کریں اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ سہل بن عدی رضی اللہ عنہ
[1] تاریخ الطبری: ۴/ ۴۷۵۔ [2] جلولاء کا معنی ہوتا ہے کسی چیز کو چادر وغیرہ سے ڈھانپ دینا۔ [3] تاریخ الطبری: ۴/ ۴۷۵۔