کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 285
ابھی لوگ چوتھی تکبیر کا انتظار کر ہی رہے تھے کہ بنو نہد قیس بن حذیم بن جرثومہ کے پیدل فوجیوں پر جو ذمہ دار مقرر تھے، وہ جوش میں آکر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: اے بنو نہد! جوانمردی کے جوہر دکھاؤ اور خود کو اسم بامسمّٰی ثابت کرو۔ خالد بن عرفطہ رضی اللہ عنہ نے ان کی جلدی کو دیکھ کر کہا: خبردار! خاموش رہو ورنہ تمہاری جگہ دوسرے کو ذمہ دار بنا دوں گا۔ چنانچہ وہ خاموش ہوگئے۔[1] ۶۔ یوم اغواث: جنگ قادسیہ کے دوسرے دن کو ’’یوم اغواث‘‘ کہا جاتا ہے۔ یوم اغواث کی رات میں قعقاع بن عمرو تمیمی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں شامی فوج کا ایک دستہ قادسیہ میں آ پہنچا۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے امیر شام ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ساتھ عراق کی جو فوج شام گئی تھی اسے معرکہ قادسیہ میں مسلمانوں کی مدد کے لیے عراق واپس بھیج دیں ۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے خالد رضی اللہ عنہ کے ساتھ آئی ہوئی عراقی فوج کو واپس بھیج دیااور خالد رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس باقی رکھا تاکہ وقت ضرورت ان سے کچھ مدد لے سکیں اور قادسیہ کو بھیجی جانے والی اس فوجی کمک کا سپہ سالار سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بھتیجے ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو بنایا۔ یہ عراقی فوج جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی امارت میں عراق سے شام آئی تھی اس وقت اس کی تعداد نو ہزار (۹۰۰۰) تھی، لیکن اب عراق واپس ہونے والوں کی تعداد صرف چھ ہزار (۶۰۰۰) تھی۔ ان میں سے ہاشم بن عتبہ رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار مجاہدین پر مشتمل فوجی دستہ کو مقدمہ کی حیثیت سے قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کی قیادت میں قادسیہ روانہ کیا۔[2] ۷۔ یوم عماس: جنگ کے تیسرے دن کو ’’یوم عماس‘‘ کہا جاتا ہے، فارسی فوج نے اس دن ہاتھیوں کو جدید طریقے سے منظم کیا، آج کے دن وہ یوم ارماث کے اس دھوکے کی تلافی کرنا چاہتے تھے جس میں ان کے ہاتھیوں کے تنگ کاٹ دیے گئے تھے، آج انہوں نے ہاتھیوں کو درمیان میں کر کے انہیں گھڑ سواروں کی حفاظت میں رکھا تھا اور مسلمان پامردی سے ہاتھیوں ، ان کے فیل بانوں اور اردگرد کے شہ سواروں سے لڑ رہے تھے لیکن سخت مشکلات کا سامنا تھا، جب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ہاتھیوں کی وجہ سے مسلمانوں کی مشکل دیکھی تو فارس کے مسلمانوں سے جو اسلامی فوج کے دوش بدوش لڑ رہے تھے، پوچھا کہ کیا ان ہاتھیوں سے نمٹنے کا کوئی حل تمہیں معلوم ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ، ان کی سونڈ اور آنکھوں کو بے کار کر دیا جائے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے قعقاع اور عاصم بن عمرو رضی اللہ عنہ کو بلوایا چونکہ یہ ہاتھی کے بالمقابل تھے اس لیے ان سے کہا: سفید ہاتھی کی ذمہ داری تمہارے اوپر ہے۔ بقیہ ہاتھی اس کے پیچھے
[1] تاریخ الطبری: ۴/۳۶۳۔ [2] تاریخ الطبری: ۴/ ۳۶۷، التاریخ الإسلامی: ۱۰/ ۳۶۷۔