کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 284
۵۔ یوم ارماث: معرکہ قادسیہ کے پہلے دن کو ’’یوم ارماث‘‘ کہا جاتا ہے، یوم ارماث کے موقع پر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اسلامی لشکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’اپنی اپنی جگہوں پر ٹھہرے رہو، اس وقت تک آگے نہ بڑھنا جب تک ظہر کی نماز نہ پڑھ لو، اور جب ظہر کی نماز سے فارغ ہو جاؤ گے تو میں تکبیر کہوں گا، تم بھی تکبیر کہنا اور تیاری شروع کر دینا۔ جان لو کہ نعرئہ تکبیر کی نعمت تم سے پہلے کسی امت کو نہیں ملی، یہ تکبیر تمہیں اللہ کی طرف سے نصرت و تائید میں ملی ہے اور جب میں دوسری تکبیر کہوں گا تو تم بھی تکبیر کہنا اور اپنی تیاریاں مکمل کرلینا اور جب تیسری تکبیر کا نعرہ ماروں گا تو تم بھی تکبیر کہنا۔ شہ سواروں کو چاہیے کہ اس موقع پر لوگوں کو پر جوش اور پھرتیلا بنا دیں تاکہ دشمن کو دعوت مبارزت دیں اور انہیں پیچھے دھکیل سکیں ، پھر جب چوتھی تکبیر کہوں گا تو تم سب دشمن پر ٹوٹ پڑو اور ان میں گتھم گتھا ہو جاؤ اور ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ۔‘‘ پڑھتے رہو۔‘‘[1] جب سعد رضی اللہ عنہ ظہر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی طرف سے ان کی خدمت پر مامور غلام کو جو قراء کرام میں سے تھا حکم دیا کہ سورئہ جہاد یعنی سورئہ انفال کی تلاوت کرے۔ اس نے اپنے قریب کے فوجی حصے میں سورئہ انفال کی تلاوت کی اور پھر ہر حصے میں اس سورت کی تلاوت کی گئی۔ اس سورت کا سننا تھا کہ مسلمانوں کے دل کشادہ ہوگئے، آنکھیں چمک اٹھیں اور قلبی سکون سے مالا مال ہوگئے۔[2] جب حفاظ و قراء تلاوت سے فارغ ہوگئے تو سعد رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی، جو لوگ ان سے قریب تھے انہوں نے تکبیر کہی اور پھر پوری فوج تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھی۔ لوگ حرکت میں آگئے اور جب دوسری تکبیر کہی تو تمام لوگوں نے تیاری مکمل کر لی پھر تیسری تکبیر کہی تو مسلمانوں کے چند جانباز آگے بڑھے اور دشمن کو دعوت مبارزت دی، اہل فارس سے بھی چند نامور سپاہی نکلے، پھر دونوں نے تلوار زنی ونیزہ بازی میں ایک دوسرے سے دو دو ہاتھ کیے۔[3] غالب بن عبداللہ اسدی، عاصم بن عمرو تیمی، عمرو بن معدیکرب زبیدی اور طلیحہ بن خویلد اسدی جیسے مسلم جانبازوں نے اس میدان مبارزت میں دشمن کو بری طرح شکست دی، اس کے کئی نامور بہادر اس میں قتل کیے گئے اور کئی ایک کو قیدی بنایا گیا، جب کہ مذکورہ مسلم جانبازوں میں سے کسی نے جان نہ گنوائی۔ درحقیقت مبارزت، جنگ کے ان مشکل ترین فنون میں سے ایک فن ہے جس پر بڑے بڑے بہادر جانباز ہی قدرت رکھتے ہیں ۔ یہ ایک ایسا جنگی فن ہے جس میں فتح یاب ہونے والوں کی شان بلند ہوتی ہے اور ان کے جذبات واحساسات کو قوت ملتی ہے جبکہ شکست خوردہ جماعت کی اہمیت گھٹ جاتی ہے اور اس کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں ۔ ابتدائی دور کے مسلمان اس فن میں ہمیشہ دوسروں پر غالب رہے اور اس کے ظاہری و معنوی اثرات سے فائدہ اٹھاتے رہے۔[4]
[1] تاریخ الطبری: ۴/۳۶۱۔ [2] تاریخ الطبری: ۴/۳۶۲۔ [3] تاریخ الطبری: ۴/۳۶۲۔ [4] التاریخ الاسلامی: ۱۰/۴۴۵۔