کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 283
رکھو، جب تلواریں جواب دے جائیں تو ان پر تیر وسنان کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دو، کیونکہ جہاں تیروں کو بار مل جاتا ہے وہاں تلواروں کو نہیں ملتا۔‘‘ بسر بن ابی رہم جہنی نے کہا: ’’اللہ کی تعریف کرو، اپنی بات کو عمل سے سچ کر دکھاؤ، اس میں کوئی شک نہیں کہ تم اللہ کی عطا کردہ ہدایت پر اس کے شکر گزار ہو، اور اس کی وحدانیت کے معترف ہو، اس کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں ، تم نے اس کی کبریائی کا اعتراف کیا ہے اور اس کے نبی و رسول پر ایمان لائے ہو، لہٰذا جب تمہاری جان نکلے تو اسلام ہی کی حالت میں نکلے، تمہاری نگاہوں میں دنیا سے زیادہ حقیر وذلیل کوئی چیز نہ ہو، جو اسے ذلیل سمجھتا ہے وہ اسی کی طرف لپکتی ہے، لیکن تم اس کی طرف مائل نہ ہونا کہ وہ تم کو لے اڑے۔ اللہ کے دین کی مدد کرو وہ تمہاری مدد کرے گا۔‘‘ عاصم بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اے عرب کے لوگو! تم عربوں کے سردار ہو اور عجمیوں کے سرداروں کے مقابلہ میں آئے ہو، تمہیں جنت کی آرزو ہے اور انہیں دنیا کی طلب، تمہاری آخرت طلبی کے مقابلہ میں وہ اپنی دنیا طلبی میں تم پر بازی نہ لے جائیں ۔ دیکھو آج کوئی ایسی بات نہ ہونے پائے جس پر کل عربوں کو ندامت کی وجہ سے سر جھکانا پڑے۔‘‘ ربیع بن بلاد سعدی نے کہا: ’’اے عرب کے لوگو! دین اور دنیا دونوں کے لیے جنگ لڑو اور اللہ کا کلام سنو۔ ﴿ وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ ﴾ (آل عمران: ۱۳۳) ’’اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دوڑو اپنے رب کی جانب سے بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین (کے برابر)ہے، ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘ اگر شیطان تمہیں دشمن کی بھاری فوج اور جنگ کی مشکلات کے حوالہ سے بہکاوے تو یاد کر لو کہ سابقہ زمانہ میں جو لوگ تمہاری فخریہ داستان سن چکے ہیں وہ تمہارے بارے میں کیا کہیں گے۔‘‘[1] اور ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اے لوگو! اللہ نے تمہیں اسلام کی ہدایت دی، اسی کلمہ پر تمہیں اکٹھا کیا، صبر کرنے میں راحت ہے، صبر کی عادت ڈالو اسی کے عادی بن جاؤ گے، جزع و واویلا کے خوگر نہ بنو کہ اسی کی تمہیں عادت پڑ جائے۔‘‘ بہر حال سب نے تقریباً اسی قسم کی باتیں کہیں ، ایک دوسرے کو بھروسا دلایا اور اپنے اپنے قبائل کو مناسب طریقے سے عار دلائی، بالآخر سب نے اسلام کے لیے مر مٹنے کا عہد کیا اور پوری طرح برانگیختہ ہوگئے۔[2]
[1] تاریخ الطبری: ۴/۳۵۹۔ [2] تاریخ الطبری: ۴/۳۶۰۔