کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 282
فاروق رضی اللہ عنہ کے حکم کا انتظار کرنے لگے، عمر رضی اللہ عنہ نے اس جنگ کے لیے کافی اہتمام کیا تھا، آپ نے پوری اسلامی سلطنت سے تمام روساء، اصحاب الرائے، شرفاء، مردان جنگ، خطباء اور شعراء کو جمع کر کے ان چنندہ افراد کو اسلامی لشکر کے ساتھ بھیج دیا تھا۔[1]
جس وقت سعد رضی اللہ عنہ اپنا لشکر لے کر زرود میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے انہی ایام میں مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ سخت بیمار پڑے اور اس سے جاں بر نہ ہو سکے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ معرکہ جسر میں ان کو جو کاری زخم لگا تھا وہی ناسور ہوگیا تھا۔ جب مثنی رضی اللہ عنہ کو احساس ہوا کہ اب میری موت قریب ہے اور ان کی تکلیف بڑھ گئی تو بشیر بن خصاصیہ کو اپنی فوج کا امیر بنا دیا اور اپنے بھائی مُعَنّٰی رضی اللہ عنہ کو بلوا کر انہیں وصیت فرمائی اور کہا کہ جلد ازجلد میری وصیت سعد رضی اللہ عنہ تک پہنچا دو اور پھر جان جان آفرین کے حوالے کر دی، اب وہ روشن چراغ بجھ چکا تھا اور چمکتا ہوا سورج غروب ہوگیا تھا جس نے فتوحات عراق کو روشنی اور حرارت سے بھر دیا تھا۔[2]
۴۔ اسلامی لشکر کا حوصلہ بلند کرنا
سیّدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ممتاز مسلم سرداروں اور افسروں کو معرکہ کے اول دن اپنے پاس بلایا اور کہا: جاؤ، آپ لوگ اپنی اپنی جگہ پر اپنی ذمہ داریاں نبھاؤ، عربوں میں تمہارا جو مقام و مرتبہ ہے اسے تم بخوبی جانتے ہو، تم عرب کے نامور شعراء، خطیب، دانش ور، بہادر اور سردار ہو۔ فوج میں جاؤ انہیں سمجھاؤ اور جنگ پر ابھارو۔ چنانچہ وہ لوگ فوج میں گئے۔ [3] قیس بن ہبیرہ اسدی نے اپنے قبیلہ کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اے لوگو! اللہ کا شکریہ ادا کرو کہ اس نے تم کو ہدایت سے نوازا اور اسی راستے میں آزما رہا ہے، وہ تمہاری قوت کو بڑھا دے گا۔ اللہ کے احسانات کو یاد کرو، اپنے کردار وعمل سے اسی کی رضا مندی تلاش کرو، بے شک تمہارے آگے جنت ہے، یا مال غنیمت اور اس محل کے پیچھے کشادہ میدان، سنگلاخ زمین، پہاڑوں کے طویل سلسلے، بیابانوں اور جنگلات کے علاوہ کچھ نہیں ہے انہیں دشمن کے راہنما کبھی طے نہیں کر سکتے، اور غالب بن عبداللہ لیثی نے کہا: اے لوگو! اپنی اس آزمائشِ الٰہی پر اللہ کی تعریف کرو، اس سے مدد مانگو، وہ تمہاری قوت بڑھا دے گا، اس کو پکارو وہ تمہیں زندگی وقوت عطا فرمائے گا۔ اے معد کی جماعت! آج تم کیوں کمزور نظر آتے ہو جب کہ تم محفوظ ہو، یعنی گھوڑوں پر سوار ہو اور تمہارے ساتھ تمہارے وفادار ساتھی یعنی تلواریں ہیں ؟ ذرا سوچو کل تمہیں لوگ کس طرح بزدلی کا طعنہ دیں گے۔ یہاں سے تمہارے کل کا آغاز ہو گا، تمہارے بعد کے لوگوں کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا۔ اور ابن ہذیل اسدی نے کہا: ’’اے معد کی جماعت! تلواروں کو اپنا قلعہ بنا لو، دشمن پر بپھرے ہوئے شیر کی طرح جھپٹو، چیتوں کی طرح ان کے وارخالی کر دو اور گردوغبار کی زرہ پہن لو، اللہ پر بھروسا کرو، نگاہیں پست
[1] تاریخ الطبری: ۴/۳۱۰۔
[2] القادسیۃ: أحمد عادل کمال ص ۲۹۔
[3] تاریخ الطبری: ۴/ ۳۵۹۔