کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 281
صحابی ہو، اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں نیکی سے مٹاتا ہے اور اللہ اور اس کے بندے کے درمیان رشتہ اطاعت کے سوا دوسرا کوئی رشتہ نہیں ، اللہ کی نگاہ میں ادنیٰ و اعلیٰ سب برابر ہیں ، اللہ سب کا رب ہے اور سب اس کے بندے ہیں ، طہارتِ نفس و تقویٰ میں ایک کو دوسرے پر فضیلت ہے، اللہ کی رضا مندی صرف اس کی اطاعت کوشی میں ہے، اپنی بعثت سے لے کر ہم سے جدا ہونے تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جو سنت رہی ہے ہر مسئلہ میں اسی پر نظر رکھنا کیونکہ وہی اصل دین ہے۔ یہی میری تم کو نصیحت ہے اگر تم اسے نہیں مانو گے اور اس سے اعراض کرو گے تو نقصان اٹھاؤ گے۔[1]
خلیفہ ٔراشد، عظیم خلیفہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی یہ بلیغ نصیحت ہے، آپ نے سعد رضی اللہ عنہ کی اس کمزور ی کو پکڑ لیا جس سے وہ دھوکا کھا سکتے تھے اور وہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا قریبی تعلق کہیں ان کے لیے دیگر مسلمانوں پر گھمنڈ کرنے کا سبب نہ بنایا جائے۔ لہٰذا آپ نے ایسے عام اسلامی اصول کا حوالہ دیا جو اس دنیا میں مسلم فرد کی کرامت و برتری کا معتبر پیمانہ ہے۔ فرمایا: اللہ سب کا رب ہے اور سب اس کے بندے ہیں ۔ صرف طہارت نفس سے ایک دوسرے پر فضیلت ملتی ہے اور اطاعت شعاری سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ گویا آپ یہ کہنا چاہتے تھے کہ گناہوں سے دوری اور اطاعت کو شی بلفظ دیگر صرف تقویٰ میں ایک کو دوسرے پر برتری حاصل ہو سکتی ہے اور اسی کا نام تقویٰ ہے اور وہی فضیلت و برتری کا الٰہی میزان ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:
﴿ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴾ (الحجرات: ۱۳)
’’اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز وہ ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہو۔‘‘
پس تقویٰ وطہارت نفس ہی سچی وبابرکت میزان ہے اگر مسلمان رب کی رضا اور اخروی سعادت کے حصول کے لیے کوشش کرے تو تقویٰ کی اس منزل تک پہنچنا اس کے لیے نہایت ممکن وآسان ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے نصیحت کے آخر میں فرمایا کہ ہر مسئلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جو سنت رہی ہے اسی پر عمل کرنا، آپ کی یہ نصیحت دین کے تمام احکامات کی بجا آوری اور عملی زندگی میں اس کے مکمل نفاذ کو شامل ہے۔[2]
۳۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ عراق میں اور مثنی رضی اللہ عنہ کی وفات:
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنا لشکر لے کر آگے بڑھے اور نجد کے ’’زرود‘‘[3] نامی ایک مقام پر خیمہ زن ہوئے۔ امیرالمومنین نے ان کے پاس مزید چار ہزار فوج بھیجی اور سعد رضی اللہ عنہ نے خود سات ہزار مجاہدین اسلام کو نجد سے جمع کر لیا تھا۔ ادھر مثنیٰ بن حارثہ شیبانی رضی اللہ عنہ بارہ ہزار فوج لے کر عراق میں سعد رضی اللہ عنہ کے منتظر تھے۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ زورد میں پڑاؤ ڈال کر اہل فارس سے فیصلہ کن جنگ کی تیاریوں میں لگ گئے اور عمر
[1] تاریخ الطبری: ۴/ ۳۰۶۔
[2] التاریخ الإسلامی: ۱۰؍۳۶۲۔
[3] ’’زرود‘‘ عراق کے راستے سے آنے والے حجاج کے راستے میں ثعلبیہ اور خزیمیہ کے درمیان ایک ریگستانی علاقہ ہے۔