کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 280
نے نافذ کیا اور جوں ہی مثنی رضی اللہ عنہ کے نام امیرالمومنین کا جبری فوجی بھرتی سے متعلق خط پہنچا انہوں نے فوراً اسے نافذ کیا۔ فوجی نقل وحرکت کا جو نقشہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کھینچا تھا اسی کے مطابق اپنا قدم آگے بڑھایا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام گورنروں اورافسروں کے پاس کارندے بھیج کر انہیں حکم دیا کہ ہر اس شخص کو جو مرد میدان ہو، جس کے پاس ہتھیار ہو، جس کے پاس گھوڑا ہو یا وہ جنگی بصیرت کا مالک ہو منتخب کر لو اور جلد از جلد میرے پاس بھیج دو اور لوگوں کو زبردستی فوج میں بھرتی کرو اور انہیں میرے پاس بھیجتے رہو تاکہ انہیں عراق کے محاذ پر بھیج سکوں ۔[1] ۱۔ جنگ عراق کے لیے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی امارت: فتوحات عراق کا یہ تیسرا مرحلہ ہے جس کا آغاز ۱۴ہجری میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی امارت سے ہوتا ہے۔ ایک طرف ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا چودھواں سال شروع ہو رہا ہے اور دوسری طرف عمر فاروق رضی اللہ عنہ مسلمانوں کو اہل فارس سے جنگ کرنے پر ابھار رہے ہیں ۔ اس سال کے محرم کی پہلی تاریخ کو مدینہ سے اسلامی لشکر لے کر آگے آگے چلتے ہیں ۔ ’’صرار‘‘[2] نامی ایک چشمہ پر آکر ٹھہر جاتے ہیں اور بہ نفس نفیس جنگ عراق میں شرکت کا عزم مصمم لے کر یہاں لشکر کے ساتھ پڑاؤ ڈالتے ہیں ۔ مدینہ میں سیّدناعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب چھوڑا ہے اور ساتھ میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور دیگر بزرگ وممتاز صحابہ ہیں ۔ اپنے عزم و فیصلہ کے متعلق صحابہ سے مشورہ لینے کے لیے ایک مجلس منعقد کرتے ہیں ۔ ’’الصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ‘‘ کی ندا لگائی گئی اور علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ سے بلا بھیجا پھر آپ نے سب سے مشورہ طلب کیا کہ جنگ میں میری شرکت کیسی ہے؟ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے علاوہ سب نے آپ کی شرکت کی تائید کی۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: مجھے ڈر ہے کہ اگر کہیں آپ کو کوئی زک پہنچ گئی تو سارے مسلمان کمزور پڑ جائیں گے۔ میری رائے ہے کہ آپ اپنی جگہ پر کسی دوسرے شخص کو امیر بنا دیں اور خود مدینہ واپس لوٹ جائیں پھر دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی فکر سے اتفاق کیا، خود عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسے بہتر سمجھا۔ لیکن آپ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے پوچھا: پھر آپ کی رائے میں کس کو امیر بنایا جائے؟ انہوں نے کہا: میں نے پا لیا۔ آپ نے پوچھا: کون؟ انہوں نے کہا: کچھار کا شیر، سعد بن ابی وقاص، عمر رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کی بات کو پسند کیا اور سعد رضی اللہ عنہ کو نجد سے بلا کر جنگ عراق کا امیر بنا دیا۔[3] ۲۔سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی وصیت: جب سعد رضی اللہ عنہ مدینہ پہنچے تو عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں جنگ عراق کا امیر مقرر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے سعد! اے بنو وہیب کی سعادت! اس بات پر کبھی گھمنڈ نہ کرنا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
[1] إتمام الوفاء: ص ۷۰۔ [2] ’’صرار‘‘ مدینہ سے تین میل کی دوری پر ایک جگہ ہے۔ معجم البلدان: ۳/ ۳۹۸۔ [3] ترتیب وتہذیب البدایۃ والنہایۃ: ص ۹۶۔