کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 279
تھا، حالانکہ ان کا اجتہاد نامناسب مقام پر تھا۔ اس لیے کہ پل کا ٹوٹ جانا ایرانیوں کے دباؤ سے بھاگتے ہوئے بہت سارے مسلمانوں کے دریا میں غرق آب ہونے کا سبب بن گیا۔ اس وقت کی مناسب فکر تو یہ تھی کہ جس قدر ممکن ہو سکے پیچھے ہٹ کر بقیہ مسلمانوں کی جان بچائی جائے اور مثنی بن حارثہ نے یہی حکمت عملی اختیار بھی کی۔ دوبارہ پل باندھنے کا حکم دیا اور خود چند مسلم جانبازوں کو ساتھ لے کر دشمن کے سامنے ڈٹ گئے اور اپنی فوج کی پشت پناہی کرنے لگے یہاں تک کہ سب دریا پار اتر گئے۔ آپ اس وقت کہہ رہے تھے: اے لوگو! ہم تمہارے لیے دشمنوں سے روک ہیں ۔ اپنی رفتار سے پل پار کرتے رہو، گھبراؤ نہیں ہم یہاں سے ہٹنے والے نہیں ، یہاں تک کہ تم کو دریا کے اس پار دیکھ لیں ، بھگدڑ مچا کر خود کو دریا میں غرق مت کرو، اس طرح مثنیٰ رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھی عاصم بن عمرو اور کلج ضبی وغیرہ مرد میدان نے سب سے آخر میں دریا عبور کیا۔ بہمن جاذویہ یہ چاہتا تھا کہ بچے کھچے مسلمانوں پر بھی اسی وقت حملہ کر دے اور اس کے لیے وہ آگے بھی بڑھا لیکن پھر ہمت نہ کر سکا۔ مثنیٰ رضی اللہ عنہ نے اسے کوئی موقع نہ دیا اور منظم شکل میں اپنے ساتھیوں کو پیچھے کھینچ کر محفوظ کر لیا۔ یہ جانباز جنہوں نے مسلمانوں کو پیچھے کر کے خود دشمن کا مقابلہ کیا یہاں تک کہ تمام مسلمان دریا عبور کر گئے، بے شک وہ دشمن کے سامنے ایک پہاڑ تھے۔ اسلامی فوج نے میدان کارزار میں پانچ ہزار شہداء کو چھوڑ کر بقیہ پانچ ہزار کی تعداد میں دریا عبور کیا۔ ان شہداء میں اکثر صحابہ تھے، بالخصوص اس میں وہ لوگ شہید ہو گئے جو ابوعبید رحمہ اللہ کے ساتھ مدینہ سے آئے تھے اور پانچ ہزار کی جو تعداد میدان جنگ سے واپس آگئی تھی ان میں سے دو ہزار مدینہ وغیرہ واپس چلے گئے اور صرف تین ہزار مثنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ باقی رہے۔ واضح رہے کہ مسلمانوں نے اس معرکہ میں بے حد نامساعد و ابتر حالات کے باوجود چھ ہزار ایرانیوں کو موت کے گھاٹ اتارا، دشمن کو اس قدر خسارہ پہنچانا درحقیقت مسلمانوں کی بہادری اور ان کی قوت تحمل کی دلیل ہے۔[1] (۲)…معرکہ قادسیہ جب امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ اہل فارس بڑے زور شور سے لڑائی کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں اور عراقی مسلمانوں کی مختصر سی باقی ماندہ فوج کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں تو جبری فوجی بھرتی کا حکم دیا اور حالات کا تقاضا بھی یہی تھا۔ آپ نے مثنیٰ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ تمام قبائل میں جو مرد میدان ہوں اور لڑنے کی طاقت رکھتے ہوں انہیں فوج میں بھرتی کریں ، وہ اس کے لیے راضی ہوں یا نہ ہوں ، اس عمل کو جبری فوجی بھرتی کہا جاتا ہے جسے اسلام میں سب سے پہلے عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے انجام دیا۔ اس واقعہ سے کتاب ’’العسکریۃ الاسلامیۃ‘‘ کے مؤلف محمد فرج کی اس تحقیق کی تردید ہو جاتی ہے جن کا کہنا ہے کہ جبری فوجی بھرتی اموی دور حکومت کی ایجاد ہے۔ مذکورہ واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ فوجی بھرتی کے اس نظام کو سب سے پہلے عمر فاروق رضی اللہ عنہ
[1] تاریخ الطبری: ۴/۲۷۹، التاریخ الإسلامی: ۱۰/۳۴۱۔