کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 278
اور تلواریں لے کر ایرانی فوج سے گتھم گتھا ہوگئے۔ ایرانی فوج کے فیل بانوں ، شہ سواروں اور پیدل چلنے والوں سپاہیوں کا مقابلہ کرنے لگے۔ ایرانی فوج مسلمانوں کو تیروں کا نشانہ بنا رہی تھی اور مسلمان بڑی بے جگری سے مورچہ لیتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتے تھے، لیکن گھوڑوں کے آگے نہ بڑھنے کی وجہ سے مات کھا جاتے۔ ان کی تاریخ کا یہ بہت ہی مشکل وقت تھا۔ تاہم ایسے نازک وقت میں انہوں نے جس جانبازی اور قربانی کا مظاہرہ کیا انسانی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ وہ اسلام کے جانباز سپوت اہل فارس کے سامنے ایک آہنی دیوار بن کر کھڑے رہے۔ باوجودیکہ دشمن کے پاس جنگ کے تمام اسباب اور تدبیریں موجود تھیں اور ہاتھی ان کے لیے سب سے بڑا ہتھیار ثابت ہوئے جس کا مسلمانوں کو سامنا تھا۔ وہ ہاتھی جدھر رخ کرتے فوج کی صفوں کو منتشر کر دیتے۔ ابوعبید رحمہ اللہ نے اپنے مجاہدین کو آواز دی اور کہا کہ ہاتھیوں پر دھاوا بولو، پالان کی رسیوں کو کاٹ دو اور ان پر سوار فوج کو الٹ دو۔ سب سے پہلے آپ ہی نے بڑے سفید ہاتھی پر حملہ کیا اور اس کی رسی کو کاٹ دیا اور جتنے ایرانی فوجی اس پر سوار تھے سب گر پڑے۔ دوسرے مسلمانوں نے بھی ایسا ہی کیا جو ہاتھی سامنے آتا اس کے پالان کی رسیاں کاٹ دیتے اور اس پر سوار کو الٹ دیتے پھر انہیں قتل کر دیتے، لیکن ہاتھی برابر حملے کرتے رہے کیونکہ انہیں جنگی ٹریننگ دی گئی تھی۔ ابوعبید رحمہ اللہ نے پہلی فرصت میں ان کو ختم کرنا چاہا اور اس سلسلے میں تدبیریں کرنے لگے، آپ کے ساتھیوں نے بتایا کہ اگر ان کی سونڈ جڑ سے کاٹ دی جائیں تو وہ مر جائیں گے چنانچہ آپ نے سفید ہاتھی پر حملہ کیا اور اس کی سونڈ پر زور دار تلوار ماری، لیکن خود ہاتھی کی لپیٹ میں آگئے۔ اس نے آپ کو پٹخ دیا اور پھر پاؤں کے نیچے رکھ کر روند دیا۔ آپ کے بعد لشکر کا جھنڈا آپ کے بھائی حکم بن مسعود رحمہ اللہ نے اٹھا لیا۔ انہوں نے بھی ہاتھی کو مار کر ابوعبید رحمہ اللہ سے اس کو دور کر دیا، لیکن ہاتھی نے ان کے ساتھ بھی ابوعبید ہی جیسا کیا یعنی سونڈ میں لپیٹ کر پٹخ دیا اور پاؤں سے کچل دیا۔ پھر یکے بعد دیگرے جن لوگوں کو ابوعبید نے علم بلند کرنے کے لیے نامزد کیا تھا باری باری وہ سب جھنڈا اٹھاتے رہے، انہی لوگوں میں ابوعبید کے تینوں فرزند وہب، مالک اور جبر بھی تھے۔ اس طرح سب کے سب شہید کر دیے گئے اور سورج غروب ہوتے ہوئے سب سے آخر میں مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی، اس وقت تک بعض مسلمان پیچھے ہٹتے اور کھسکتے پل کے اس پار اتر چکے تھے اور کچھ میدان چھوڑ کر پیچھے آرہے تھے، عبداللہ بن مرثد ثقفی نے جب دیکھا کہ مسلم فوج میدان چھوڑ کر بھاگنا چاہتی ہے تو انہوں نے جلدی سے دریا پر بنا ہوا پل توڑ دیا اور کہنے لگے جس طرح تمہارے امراء وقائدین نے لڑتے لڑتے جانیں دی ہیں اسی طرح تم بھی جان دے دو یا کامیاب ہو کر لوٹو، وہ لوگوں کو دریا عبور کرنے سے روکنے کی پوری کوشش کر رہے تھے۔ بعض لوگ ان کو پکڑ کر مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے پاس لائے۔ آپ نے غصہ سے ان کو مارا اور کہنے لگے: تم نے ایسا کیوں کیا؟ یعنی پل کیوں توڑ ڈالے؟ انہوں نے کہا: تاکہ فوج جم کر جنگ لڑے۔ دراصل عبداللہ بن مرثد نے اپنے اجتہاد کی بنا پر یہ اقدام کیا