کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 277
سے مطالبہ شروع کر دیا کہ آپ کسی مہاجر یا انصاری کو ہمارا امیر بنا دیں ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو شخص لوگوں کو ابھارنے میں پیش پیش رہا ہے، میں اس سے زیادہ امارت کا حق دار کسی دوسرے کو نہیں سمجھتا۔ اگر سلیط جنگی امور میں جلد باز نہ ہوتے تو انہی کو تمہارا امیر بناتا، لہٰذا ابوعبید امیر ہوں گے اور سلیط وزیر۔ چنانچہ لوگوں نے سمع وطاعت کا مظاہرہ کیا۔[1] ۲۔ معرکہ جسر ۱۳ہجری: ایرانی فوج کا سپہ سالار جالینوس جب مسلمانوں سے شکست خوردہ ہو کر فارس واپس لوٹا تو اہل فارس نے اسے اور اس کی فوج کو کافی ملامت کی اور غرور کی پیشانی سے ذلت و ہزیمت کا پسینہ دھونے کے لیے آپسی اختلافات بھلا کر رستم کی حکمرانی پر سب متفق ہوگئے اور رستم نے ذو الحاجب بہمن جاذویہ کی قیادت میں بہت بڑی فوج مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے روانہ کی اور اسے چیتے کی کھال کا بنا ہوا ’’درفش کاویانی‘‘ (عظیم پرچم) نامی کسروی جھنڈا دیا، اہل فارس کی نگاہوں میں وہ جھنڈا متبرک مانا جاتا تھا، گویا وہ اسے فتح کی علامت سمجھ رہے تھے۔ اس کا طول بارہ ہاتھ اور عرض آٹھ ہاتھ تھا۔ ایرانی فوج مسلمانوں کے قریب پہنچی، دونوں کے درمیان ایک نہر تھی جس پر پل بنا ہوا تھا۔ انہوں نے مسلم افواج سے کہا: یا تو تم دریا عبور کرو یا ہم عبور کرتے ہیں ۔ مسلمانوں نے اپنے امیر ابوعبید رحمہ اللہ کو مشورہ دیا کہ آپ دشمن ہی کو دریا عبور کرنے دیں ۔ لیکن ابوعبید رحمہ اللہ نے کہا: وہ ہم سے زیادہ موت پر دلیر نہیں ہیں ، دریا ہم عبور کریں گے۔ پھر آپ دشمن کی طرف بڑھے اور اپنی فوج لے کر ایک تنگ جگہ پر اکٹھا ہوئے اور دونوں افواج میں ایسی زبردست جنگ ہوئی کہ اس سے پہلے کبھی اس کی مثال نہیں ملتی تھی، اسلامی فوج کی تعداد تقریباً دس ہزار تھی جب کہ ایرانی فوج کے ساتھ ہاتھیوں کا ایک عظیم لشکر تھا۔ مسلم افواج کے گھوڑوں کو بدکانے کے لیے ان کے گلوں میں گھنٹیاں باندھے ہوئے تھے۔ وہ جب مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے تو گھوڑے ان ہاتھیوں اور گھنٹی و گھنگرو کی آوازوں سے بدک جاتے۔ کافی مجبور کرنے پر بہت کم ہی گھوڑے میدان میں ٹک سکے اور جب مسلمان حملہ آور ہوئے تو ان کے گھوڑے آگے بڑھنے کو تیار نہ ہوئے۔ ادھر فیل نشین ایرانی فوج مسلمانوں پر تیروں کی بارش کر دیتی، اس طرح مسلمانوں کے اوسان خطا ہو گئے اور بہت سے فوجی شہید ہوگئے تاہم انہوں نے ایرانی فوج کے چھ ہزار سپاہیوں کو مار گرایا۔[2] بہرحال جب ہاتھیوں کے گردن میں لٹکتی ہوئی گھنٹی کی آوازوں سے مسلمانوں کے گھوڑے بدک رہے تھے اور مسلمان ایرانی فوج تک پہنچنے سے عاجز نظر آرہے تھے، کیونکہ ہاتھی ان کی صفوں کو منتشر کر دیتے تھے، ایسے وقت میں ابو عبید رحمہ اللہ اپنے گھوڑے سے کود پڑے، ان کو دیکھ کر دوسرے مسلم فوجی بھی اپنے گھوڑوں سے کود گئے
[1] ألانصار فی العصر الراشدی: ص ۲۱۶۔ [2] ترتیب وتہذیب البدایۃ والنہایۃ: ص ۹۰۔