کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 273
٭ افسران وملازمین کی تقرری ٭ ذمیوں کے حقوق کی رعایت
٭ دانشوران قوم سے مشورہ طلبی اور ان کی عزت و توقیر
٭ ریاست کے تعمیراتی منصوبوں پر توجہ
٭ باشندگان ریاست کے معاشرتی احوال وظروف کی رعایت
٭ عربی اور غیر عربی میں عدم امتیاز (تفصیل کے لیے دیکھیے: سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، ص: ۵۳۱ تا ۵۴۰)
(۳)…والیان ریاست کی نگرانی اور ان کا محاسبہ
والیان ریاست کی نگرانی:
سیّدناعمر رضی اللہ عنہ اس بات سے قطعاً مطمئن نہ تھے کہ صرف بہترین گورنران کے انتخاب کا اہتمام کر کے اس پر خوش رہیں بلکہ انہیں ان کی ذمہ داریاں سونپنے کے بعد پوری کوشش سے ان کی نگرانی کرتے رہتے تاکہ ان کی بہترین سیرت اور اخلاقیات سے مطمئن ہو جائیں اور عدم نگرانی کی صورت میں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ نفس پرستی میں بہک جائیں ۔ گورنران کے تئیں آپ کا بس ایک ہی شعار تھا کہ ’’روزانہ میں ایک والی کو معزول کروں ، یہ میرے لیے اس بات سے کہیں بہتر ہے کہ کسی ظالم کو اس منصب پر ایک گھنٹہ کے لیے باقی رکھوں ۔‘‘[1]
اور فرماتے تھے:
’’اگر میرا کوئی افسر کسی پر ظلم کرے اور مجھے اس کی خبر ہو جانے کے بعد میں اسے نہ بدلوں تو گویا میں نے اس پر ظلم کیا ہے۔‘‘[2]
ایک دن آپ نے اپنے ہم نشینوں سے کہا: ’’اگر میں اپنے علم کے مطابق کسی کو اچھا جان کر تم پر عامل (افسر) مقرر کر دوں ، پھر اسے عدل وانصاف کرنے کا حکم دے دوں تو تمہارا کیا خیال ہے کہ میں نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی؟ آپ کے ہم نشینوں نے جواب دیا: ہاں ۔ آپ نے فرمایا:
’’نہیں نہیں ۔ یہاں تک کہ میں اس کے کام کو دیکھ لوں کہ کیا میرے حکم کے مطابق اس نے کام کیا یا نہیں ۔‘‘[3]
آپ بڑی ثابت قدمی اور دقت سے اپنے افسران وگورنران کے ادارتی کاموں کی نگرانی کرتے رہتے تھے۔ ادارتی نظم ونسق کے سلسلے میں آپ کا طریقہ یہ تھا کہ مقامی معاملات میں عامل (افسر) کو مکمل اختیار دے دیتے، عام مسائل میں اس کے اختیارات محدود رکھتے اور اس کے اخلاق وکردار نیز ادارتی کار گزاری پر گہری نگاہ
[1] النظم الإسلامیۃ: صبحی الصالح ص ۸۹، الإدارۃ الإسلامیۃ: ۲۱۵۔
[2] مناقب امیرالمومنین عمر بن الخطاب: ابن الجوزی ص ۵۶، الإدارۃ الإسلامیۃ: ۲۱۵۔
[3] الإدارۃ الإسلامیۃ فی عہد عمر بن الخطاب: ص۲۱۵۔